پاکستان میں پر امن انتقال اقتدار، ایک اور باب مکمل
9 ستمبر 2013حلف برداری کی تقریب اسلام آباد کے ایوانِ صدر میں منعقد ہوئی۔ پاکستانی چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے نو منتخب صدر سے حلف لیا۔
تقریب حلف برداری میں وزیر اعظم نواز شریف، بہت سے وفاقی وزراء، ارکان پارلیمنٹ، چاروں صوبوں کے گورنر اور وزرائے اعلیٰ، مسلح افواج کے سربراہان، غیر ملکی سفیروں، سابق وزرائے اعظم میر ظفراللہ جمالی، چوہدری شجاعت حسین، سید یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف کے علاوہ سابق صدر رفیق تارڑ اور دیگر اہم شخصیات نے بھی شرکت کی۔ سبکدوش ہونے والے صدر کی حیثیت سے آصف علی زرداری بھی اپنے جانشین ممنون حسین کی حلف برداری کی تقریب میں شریک ہوئے۔
30 جولائی کو ہونے والے صدارتی انتخاب میں ممنون حسین 432 الیکٹورل ووٹ حاصل کر کے ملک کے بارہویں صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مدمقابل امیدوار تحریکِ انصاف کے جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین نے 77 ووٹ حاصل کیے تھے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی نے صدارتی الیکشن کا بائیکاٹ کیا تھا۔
صدر ممنون حسین کی حلف برداری سے ایک روز قبل اتوار کو پاکستان کی تاریخ کے طاقتور ترین سویلین صدور میں سے ایک آصف علی زرداری طے شدہ پانچ سالہ مدت پوری کرنے کے بعد جمہوری طریقے سے اپنے عہدے سے سبکدوش ہو کر ایوان صدر سے رخصت ہو گئے تھے۔ انہیں ایوان صدر سے رخصتی کے وقت الوداعی گارڈ آف آنر بھی پیش کیا گیا تھا۔
آصف علی زرداری کو سربراہ مملکت کے طور پر پانچ سالہ مدت میں صدارتی عہدہ رکھنے کے باوجود اپنی پارٹی کی سربراہی کرنے، ایوان صدر کو سیاسی سرگرمیوں کے لیے استعمال کرنے اور ملک کو درپیش اہم مسائل سے مبینہ چشم پوشی جیسے الزامات کے باعث تنقید کا سامنا بھی رہا۔ تاہم دوسری جانب سابق صدر کے حامیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں جمہوریت کی بقاء اور استحکام کے لیے ان کے اقدامات اور ایک منتخب جمہوری حکومت سے دوسری منتخب جمہوری حکومت کو پرامن، جمہوری اور آئینی طریقے سے اقتدار کی منتقلی کے ذریعے آصف علی زرداری نے ایک نئی تاریخ رقم کی۔
پی پی پی کے شریک چیئرمین کی حیثیت سے آصف زرداری نے 2008ء کے عام انتخابات میں اپنی پارٹی کو کامیابی دلائی۔ انہوں نے اس اتحاد کی بھی قیادت کی تھی، جس نے جنرل (ر) پرویز مشرف کو بطور صدر مستعفی ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔ زرداری خود 6 ستمبر 2008ء کو ملکی صدر منتخب ہوئے تھے۔
اپنی مدت صدارت کے دوران آصف زرداری نے اپنی پارٹی پی پی پی کے شریک سربراہ کی حیثیت سے بھی طاقت کا مظاہرہ کیا تاہم اس حوالے سے نئے صدر ممنون حسین کا معاملہ مختلف دکھائی دیتا ہے۔
آصف علی زرداری کی طرح ممنون حسین کی اپنی کوئی وسیع عوامی پاور بیس نہیں ہے اور اب آئین کے تحت پاکستانی صدر کو وہ لامحدود اختیارات بھی حاصل نہیں جو ممنون حسین کی پیش رو منتخب یا غیر منتخب شخصیات کو ماضی میں حاصل رہے ہیں۔ لہٰذا اس امر میں کوئی شک نہیں کہ نئے صدر ممنون حسین جس عہدے پر فائز ہوئے ہیں، وہ اب محض ایک رسمی عہدہ ہے۔
تہتر سالہ نئے پاکستانی صدر ممنون حسین کا تعلق کراچی سے ہے اور وہ ایک تجارت پیشہ سیاستدان تھے، جو اب اصولاﹰ غیر سیاسی سربراہ مملکت بن گئے ہیں۔ اُنہوں نے کراچی کے انسٹیٹیوٹ آف بزنس ایڈمنسٹریشن سے تعلیم حاصل کی تھی۔ انیس جون 1999ء سے بارہ اکتوبر 1999ء تک وہ سندھ کے گورنر بھی رہے۔ جولائی کے آخر میں صدر منتخب ہونے کے فوری بعد انہوں نے اپنی تب تک کی سیاسی جماعت مسلم لیگ نواز کی بنیادی رکنیت سے بھی استعفیٰ دے دیا تھا۔