1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان میں پیکا قانون میں ترمیم کی خبروں پر تشویش

14 جولائی 2023

پاکستان میں انسداد الیکٹرانک کرائمز ایکٹ 2016 میں ترمیم کی خبروں نے صحافتی اور آزادی اظہار رائے کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے کارکنان کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4TvEp
Studentinnen Pakistan
تصویر: AAMIR QURESHI/AFP/Getty Images

اسلام آباد میں یہ خبریں گردش کررہی ہیں کہ حکومت پیکا کے قوانین میں ترمیم کرنے کی خواہاں اور اس پر تیاری بھی مکمل ہوگئی ہے، جس پر کئی حلقے تشویش کا اظہار کررہے ہیں۔

ذمہ دار ڈیجیٹل شہری کیسے بنا جائے؟

سائبر کرائم، محافظ ہی عورت کے استحصال کی وجہ؟

واضح رہے کہ اس طرح کی ترمیم عمران خان کے دور حکومت میں بھی کرنے کی کوشش کی گئی تھی اور اسلام آباد ہائی کورٹ نے اس کوشش کو غیر قانونی قرار دے دیا تھا۔ حکومت کے اکابرین اس معاملے کی تفصیلات بتانے سے گریزاں ہیں۔ ڈی ڈبلیو کو وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف اعظم نذیر تارڑ نے بتایا کہ جب ان کی وزارت کے پاس تجاویز، مسودات یا ترامیم بھیجی جاتی ہیں، تو وہ صرف ان کی قانونی حیثیت کو پرکھتے ہیں۔

انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''مجھے یاد نہیں پڑتا کہ پیکا میں جو ترامیم آرہی ہیں وہ کس نوعیت کی ہیں لیکن حکومت کسی بھی ایسی ترمیم پر یقین نہیں رکھتی جو آئین اور قانون کے خلاف ہو۔‘‘

 انہوں نے ڈی ڈبلیو کو مذید بتایا، ''جہاں تک فوج اور عدلیہ پہ تنقید کرنے کی بات ہے تو آئین میں پہلے سے ہی اس حوالے سے آرٹیکلز موجود ہیں۔‘‘

ترامیم کیا ہیں؟

 انگریزی روزنامہ دی نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق حکومت نے پیکا 2016 میں ترمیم کے لیے تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ ترامیم کے مطابق اگرکسی مخصوص ادارے، شخص، گروپ، تنظیم یا کسی اور اکائی کے خلاف فیک نیوز آئی تو اس کا سختی سے تدارک کیا جائے گا جب کہ سوشل میڈیا رولز میں بھی تبدیلی کی جائے گی تاکہ پی ٹی اے اور ایف آئی اے کے اختیارات فیک نیوز کو چیک کرنے کے لیے بڑھائے جا سکیں۔

اخبار کا دعویٰ ہے کہ امکان ہے کہ پیکا میں ایک نئی سیکشن کا اضافہ کیا جائے گا تاکہ حکام فیک نیوز پھیلانے والوں کے خلاف سخت ایکشن لے سکیں۔ اخبار  کا مزید دعویٰ ہے کہ سوشل میڈیا کمپنیوں سے کہا جائے گا کہ وہ پاکستان سے آپریٹ کریں اور یہاں پر اپنے دفاتر قائم کریں۔ اگر سوشل میڈیا کمپنیز نے اپنی سائٹ سے قابل اعتراض مواد نہیں ہٹایا تو ان کو بلاک بھی کیا جا سکتا ہے۔ اخبار کا دعویٰ ہے کہ حکومت کی معیاد ختم ہونے سے پہلے ان ترامیم کو منظور کر لیا جائے گا۔

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کی ترجمان ملاحت عبید نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سوشل میڈیا یا ٹیلی کمیونیکیشن کے حوالے سے جب بھی قوانین میں کوئی ترمیم ہوتی ہے تو پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی کو اون بورڈ لیا جاتا ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو نے جب اس حوالے سے وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی کے دفتر سے رابطہ کیا تو ڈی ڈبلیو کو بتایا گیا، ''وفاقی وزیر برائے انفارمیشن ٹیکنالوجی سید امین الحق اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ سوشل میڈیا پر فیک نیوز کا سدباب ہونا چاہیے اور جو لوگ مذہبی منافرت پھیلاتے ہیں، اداروں کے خلاف گمراہ کن پروپیگنڈا کرتے ہیں، اسلامی شعار یا پاکستان کی ثقافتی اقتدار کے خلاف کوئی مواد اپلوڈ کرتے ہیں، ان کے خلاف ایکشن ہونا چاہیے۔ تاہم وزارت انفارمیشن ٹیکنالوجی اس بات پر یقین نہیں رکھتی کہ کسی بھی طرح کی سوشل میڈیا ویب سائٹ پر کوئی پابندی لگائی جائے۔‘‘

اے آئی اپنے ساتھ لائی مواقع یا خطرات، آپ کیا کہتے ہیں؟

تشویش کی لہر

اس طرح کی ترامیم کی خبروں نے سول سوسائٹی کو تشویش میں مبتلا کر دیا ہے۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی معروف وکیل ایمان زینب مزاری کا کہنا ہے کہ حکومت نے پیکا آرڈیننس کے تحت بھی اس طرح کی ترامیم لانے کی کوشش کی تھی، جسے اسلام آباد ہائی کورٹ نے غیر قانونی قرار دیا تھا۔ ایمان زینب مزاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''بنیادی طور پہ اس طرح کی ترامیم جی ایچ کیو لے کر آنا چاہتا ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ سویلین لیڈرز چاہے ان کا تعلق کسی بھی سیاسی جماعت سے ہو وہ ربر اسٹیمپ کی طرح ایسے قوانین کو قانونی شکل دینے کی کوشش کرتے ہیں، جس سے جبر کے ماحول میں اضافہ ہوتا ہے۔ یقیناﹰ ایسے قوانین اور ترامیم آئین کی صریح خلاف ورزی ہے۔‘‘

سوشل میڈیا پر کنٹرول

 ایمان زینب مزاری کے مطابق یہ قوانین اس لیے لائے جا رہے ہیں تاکہ سوشل میڈیا کو بالکل اسی طرح کنٹرول کیا جائے جیسے مین سٹریم میڈیا کو کنٹرول کیا گیا ہے۔ '' سوشل میڈیا پر اب بھی بہت سارے ناقدین آرمی کے غیر آئینی کردار پر بحث کر رہے ہیں اور اسے تنقید کا نشانہ بھی بنا رہے ہیں، جو یقینا طاقتور حلقوں کے لیے ایک پریشان کن بات ہے، اسی لیے وہ سوشل میڈیا پہ تنقید کا گلا گوٹنا چاہتے ہیں۔‘‘

کراچی سے تعلق رکھنے والی فریحہ عزیز، جو ڈیجیٹل رائٹس ایکٹیوسٹ ہیں، کا خیال ہے کہ اس طرح کی ترامیم انتہائی پریشان کن ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ' عدالتوں کے لیے نسبتاﹰ یہ آسان ہے کہ وہ آرڈیننس کو غیر قانونی قرار دیں لیکن اگر یہ پارلیمنٹ کے ذریعے ایسا قانون بنتا ہے تو پھر اس کو ختم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘

فریحہ عزیز کے مطابق یہ افسوس کی بات ہے کہ جب کوئی سیاسی جماعت اقتدار سے باہر ہوتی ہیں، تو وہ اس طرح کی قوانین کی مخالفت کرتی ہیں۔ ''لیکن جب وہ اقتدار کے اندر ہوتی ہیں تو اس طرح کے خطرناک قانون لے کر اتی ہیں۔‘‘

مزاحمت کے اشارے

 پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹیری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ یہ عجیب بات ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ اس طرح کی ترامیم کو ماضی میں غیر قانونی قرار دے چکا ہے اور حکومت اب بھی اس طرح کے قوانین لے کر آ رہی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت میں کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ پیکا کے قوانین سوشل میڈیا کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو گئے ہیں۔ اس لیے وہ پیکا کے قوانین کو مزید سخت بنانا چاہتے ہیں تاکہ سوشل میڈیا کو کنٹرول کیا جا سکے لیکن ایسا کوئی بھی حکومتی اقدام اظہار رائے کے خلاف ہوگا، جس کی وہ بھرپور مخالفت کریں گے اور اس کے خلاف مزاحمت بھی کریں گے۔‘‘