پاکستان میں ہر سال ملیریا کے لاکھوں کیسز، ہزاروں اموات
25 اپریل 2016ملیریا ایک موذی مرض ہے اورعالمی ادارہء صحت کے مطابق پاکستان میں ہر سال قریب پانچ لاکھ انسان اس بیماری کا شکار ہو جاتے ہیں، جن میں سے ہزاروں کو اسی مرض کے باعث موت بھی واقع ہو جاتی ہے۔
دنیا بھر میں ہر سال کم و بیش بیس کروڑ افراد ملیریا کا شکار ہوتے ہیں، جن میں سے زیادہ تر تعداد افریقی اور صحرائی علاقوں میں بسنے والے لوگوں کی ہوتی ہے۔
پاکستان کے ڈائریکٹر برائے ملیریا کنٹرول محمد اسلم خان نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ فاٹا، بلوچستان کے اکیس اضلاع، خیبر پختونخوا کے سات اضلاع اور سندھ کے پانچ اضلاع ایسے ہیں، جہاں ملیریا کا مرض ایک تشویش ناک مسئلے کی حیثیت سے موجود ہے۔
بلوچستان میں مریضوں میں ملیریا کی سالانہ شرح پانچ اعشاریہ چار فیصد ہے۔ محمد اسلم خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بلوچستان میں غیر ملکی امدادی اداروں کی مدد سے ملیریا کے کنٹرول کے لیے ایک اسٹریٹیجک پلان تشکیل دیا گیا ہے۔ اور اس مرض کے خلاف صوبے میں ملیریا انفارمیشن سسٹم بھی متعارف کرا دیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صوبے بھر میں ایک ہزار سات سو ملیریا تشخیصی مراکز بھی قائم کیے گئے ہیں۔
اسلم خان سے ڈی ڈبلیو نے جب پوچھا کہ کیا ملیریا کا مکمل خاتمہ ممکن ہے، تو ان کا کہنا تھا کہ ایسا بالکل ممکن ہے لیکن اس کے لیے طبی سہولیات کے ساتھ ساتھ سیاسی ارادے کی بھی ضرورت ہے کیونکہ اس کے لیے بہت زیادہ وسائل درکار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بہتر منصوبہ بندی اور صوبوں کی باہمی کوآرڈینیشن سے ملیریا کا مکمل خاتمہ ممکن ہے۔
پاکستان میں ملیریا کے باعث ہونے والی اموات کی تعداد کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ چونکہ دیہی علاقوں میں ملیریا سے ہونے والی اموات کا ڈیٹا موجود نہیں ہوتا، اس لیے یہ بتانا مشکل ہے۔ لیکن پاکستان میں سالانہ دو لاکھ سترہ ہزار مصدقہ ملیریا کیسز رپورٹ ہوتے ہیں، جن میں مریضوں کا باقاعدہ علاج بھی کیا جاتا ہے۔
وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک نجی ہسپتال کے مالک اور ملیریا کے ماہر ڈاکٹر آصف سعید نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ انٹرویو میں کہا کہ ملیریا کی بیماری مچھر کی ایک قسم اینوفلیز کی مادہ کے کاٹنے سے پھیلتی ہے اور جب یہ مادہ مچھر کسی ملیریا سے متاثرہ شخص کو کاٹتا ہے، اس شخص کے خون سے ملیریا کے جرثومے اس مچھر میں منتقل ہو جاتے ہیں۔ یہ جرثومے پھر مچھر کے جسم ہی میں نمو پاتے ہیں اور تقریبا ایک ہفتے بعد جب یہ مادہ مچھر کسی تندرست شخص کو کاٹتی ہے، تو پلازموڈیم یا ملیریا کا جر ثومہ اس صحت مند شخص کے خون میں شامل ہو جاتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک خاص تعداد میں یہ جرثومے پیدا ہو جاتے ہیں تومریض پر اس بیماری کا حملہ واضح ہو جاتا ہے۔
ڈاکٹر آصف نے بتایا کہ ملیریا کی علامات یہ ہیں کہ مریض کو پہلے سردی لگتی ہے، متلی ہوتی ہے، قے آتی ہے پھر اسہال، شدید جسمانی کمزوری، پٹھوں کا دکھنا، پیٹ، کمر اور جوڑوں میں درد، کھانسی گھبراہٹ اور سر درد جیسی علامات بھی واضح ہو جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ شدید حملے کی صورت میں یہ بیماری مریض کے لیے جان لیوا بھی ہو سکتی ہے۔
ڈاکٹر آصف کے بقول ملیریا ان بیماریوں میں سے ہے، جن سے احتیاط برت کر مکمل طور پر بچا جا سکتا ہے لیکن اگر یہ بیماری کسی کو لاحق ہو جائے تو بہترین علاج موجود ہونے کے باوجود مریض نہ صرف خطرناک پیچیدگیوں کا شکار ہو سکتا ہے بلکہ اس کی موت بھی واقع ہو سکتی ہے۔
اسلام آباد کے ایک سرکاری اسپتال میں موجود ملیریا کی ایک مریضہ شاہدہ نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ وہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھتی ہیں اور پچھلے کئی ماہ سے اس بخار میں مبتلا ہیں۔ انہوں نے بتایا، ’’ہمارے گاوں میں ڈاکٹر ہی نہیں ہے۔ اس لیے علاج کے لیے اسلام آباد آئی ہوں۔ لیکن دوائی سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا اور بخار اترنے کا نام ہی نہیں لے رہا۔ زندگی غریب لوگوں کے لیے بہت مشکل ہوتی جا رہی ہے۔‘‘
پاکستان میں ملیریا زیادہ تر بارشوں کے موسم کے بعد پھیلتا ہے۔ پلازموڈیم ملیریا کی چار مختلف اقسام ہیں، جن میں فیلسی پیرم سب سے خطرناک ہے اور زیادہ تر دماغ پر اثر کر کے پیچیدگیاں پیدا کرتی ہے۔ اگر خون کے ٹیسٹ کے ذریعے ملیریا کی تشخیص ہو جائے تو پھر اس بیماری کی اسی متعلقہ قسم کا علاج کیا جاتا ہے۔