1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان: پنجاب بھر میں گرفتاریاں، چھاپے اور روکاوٹیں

24 مئی 2022

پاکستان تحریک انصاف کے لانگ مارچ سے پہلے صورتحال کشیدہ ہو گئی ہے۔ پی ٹی آئی کا دعویٰ ہے کہ پنجاب بھر سے ان کی جماعت کے ایک ہزار سے زائد کارکنوں کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4BnmI
لانگ مارچ کو روکنے کے لیے مرکزی سڑکوں پر روکاٹیں لگائی گئیں ہیںتصویر: Tanvir Shahzad/DW

پاکستان کے سب سے بڑے صوبے پنجاب کے تقریباﹰ تمام اضلاع میں پی ٹی آئی کے کارکنوں کی گرفتاریاں جاری ہیں۔ انٹیلیجنس رپورٹوں  کے مطابق پولیس پی ٹی آئی کے کارکنوں  کی گرفتاریوں کے لیے چھاپے مار رہی ہے۔ پی ٹی آئی کے بیشتر رہنما اپنے گھروں سے ''فرار‘‘ ہو چکے ہیں اور کسی ممکنہ آزمائش سے بچنے کے لیے انہوں نے اپنے موبائل فون بھی بند کر رکھے ہیں۔

پنجاب میں اگلے سات روز کے لیے اجتماعات پر پابندی لگاتے ہوئے دفعہ ایک سو چوالیس نافذ کر دی گئی ہے۔ پنجاب پولیس کے ایک اعلیٰ افسر نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ صرف لاہور میں ڈیڑھ سو کے قریب پی ٹی آئی ورکرز اب تک گرفتار کیے جا چکے ہیں۔

پی ٹی آئی کارکنان کا کہنا ہے کہ  پولیس کی طرف سے ان کے گھروں میں داخل ہو کر چاردیواری کے تقدس کو پامال کیا گیا ہے اور بغیر وارنٹ کے گرفتاریاں کی گئی ہیں۔ دوسری طرف حکومتی رہنماؤں کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کی طرف سے خونی لانگ مارچ کا عندیہ دینے اور اسلحہ بردار جتھوں کی اسلام آباد کی طرف یلغار کے حوالے سے خفیہ اداروں کی رپورٹس ملنے کے بعد قانون کی عملداری کو یقینی بنانے کے لیے ضروری اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

اس وقت پنجاب کے مختلف علاقوں میں موٹر ویز کے انٹرچینجز کو بند کیا جا رہا ہے۔ جی ٹی روڈ پر بھی کئی مقامات پر رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں۔ ادھر لاہور میں آنے والے راستے تو ٹریفک کے لیے کھلے ہیں لیکن اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کو کنٹینرز لگا کر بند کر دیا گیا ہے۔

شہر کے کئی بس اسٹینڈز بند کر دئیے گئے ہیں۔ جگہ جگہ مسافروں کی ٹولیاں پریشانی کے عالم میں موجود ہیں۔ موٹروے کے قریبی علاقوں میں لاہور کی ٹریفک پولیس گاڑیوں کو باہر بھیج رہی ہے۔ اسلام آباد پہنچنے کی متمنی ناہید نامی ایک خاتون نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لڑائی عمران خان اور حکومت کی ہے ہمیں کیوں خوار کیا جا رہا ہے۔‘‘  شہر کے اندر چلنے والی میٹرو بس سروس بھی ایم اے او کالج سے شاہدرہ تک کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ شہروں میں پولیس کا فلیگ مارچ جاری ہے جبکہ اہم عمارتوں پر بھی پولیس کے مسلح اہلکار تعینات کئے گئے ہیں۔

انصاف لائیئرز فورم کی درخواست کی سماعت کرتے ہوئے لاہور ہائی کورٹ نے ممکنہ تشدد اور گرفتاریوں کے حوالے سے انسپکٹڑ جنرل پولیس اور چیف سیکریٹری پنجاب سے جواب طلب کر لیا ہے۔

پاکستان: عمران خان کی وزارت عظمیٰ کے خاتمے کے خلاف مظاہرے

لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں گزشتہ رات پولیس چھاپے کے دوران مبینبہ طور پر پی ٹی آئی کے ایک کارکن کی طرف سے چلائی جانے والی ایک گولی کی تاب نہ لاتے ہوئے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہو گیا ہے۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے مقتول پولیس اہلکار کمال احمد کی نماز جنازہ کے بعد پی ٹی آئی کے کارکنوں کی جارحانہ پالیسیوں کی مذمت کی ہے۔  پولیس نے مقتول کمال احمد کے قتل کے الزام میں مقدمہ درج کرکے  پی ٹی آئی کے ایک رہنما اور ایک حساس ادارے کے سابق افسر ساجد اور ان کے بیٹے کو گرفتار کر لیا ہے۔

ایک شہری مدثر اعظم نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''سڑکوں پر پی ٹی آئی کے کارکن تو موجود نہیں لیکن سوشل میڈیا پر ان کے کارکن محاذ سنبھالے ہوئے ہیں، دوسری طرف کسی خفیہ مقام پر موجود پی ٹی آئی کے کئی رہنما اپنے اپنے ویڈیو بیانات میں مزاحمتی تحریک موجودہ حکومت کے خاتمے تک جاری رکھنے کے دعوے کر رہے ہیں۔‘‘

پاکستانی صحافی بے نظیر شاہ نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج کرنا ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے ۔ بہتر ہوتا اگر حکومت اور پی ٹی آئی مل بیٹھ کر اس احتجاج کے پرامن انعقاد کے لیے کوئی مفاہمت کر لیتے۔ لیکن ان کے بقول لاہور میں ایک پولیس اہلکار کی ہلاکت اور اسلحہ جمع کرنے کی خفیہ اداروں کی مبینہ رپورٹس کے بعد حکومت کے پاس بھی آپشنز کم رہ گئے تھے۔

ایک سوال کے جواب میں بے نظیر شاہ کا کہنا تھا کہ لگتا ہے کہ اس صورتحال کا فائدہ پی ٹی آئی کو ہوگا۔ ''وہ ہمدردی حاصل کرکے حکومت کے خلاف ایک انتقامی کارروائی کا بیانیہ پیش کرنے لگ گئے ہیں۔‘‘ دوسری طرف یہ حکومت کمزور ہے اور اس نے ابھی مشکل فیصلے بھی کرنے ہیں اس لیے پی ٹی آئی چاہتی ہے کہ اس حکومت کو اور کمزور کیا جائے تاکہ اسٹیبلشمنٹ مجبور ہو کر الیکشن کی طرف آسکے۔

وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف سے ملیے!