پاکستان کا آئی ایم ایف سے مزید قرض لینے سے انکار
1 نومبر 2011برطانوی اخبار فنانشل ٹائمز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستانی وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے کہا ہے کہ مالیاتی اصلاحات کے لیے آئی ایم ایف کی مطالبہ کردہ شرائط انتہائی سخت ہیں، اس لیے اب اسلام آباد حکومت اس ادارے سے مزید کوئی قرض نہیں لے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ملکی سطح پر ایک جامع اصلاحاتی پروگرام شروع کیا جا رہا ہے اور بہتری کی طرف گامزن پاکستانی معیشت کو اب IMF کے قرضوں کی کوئی ضرورت نہیں رہی۔
واشنگٹن میں قائم بین الاقوامی مالیاتی فنڈ نے سن 2008 میں پاکستان کو 11.3 ارب ڈالر کے قرضوں کے ایک پیکج کی منظوری دی تھی۔ پاکستان کو گزشتہ کئی برسوں سے افراط زر کی انتہائی اونچی شرح کا سامنا ہے جبکہ ملک بھر میں امن عامہ کی خراب صورت حال بھی اپنی جگہ بہت تشویشناک ہے۔
آئی ایم ایف نے رواں سال کے اوائل میں اشارہ دیا تھا کہ اسلام آباد حکومت اپنے وعدوں پر پورا اترتی دکھائی نہیں دیتی اور ملک کے مستقل مالی مسائل سے نمٹنے کے لیے جامع اصلاحات کے نئے پروگرام میں بھی کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔ مئی میں آئی ایم ایف کی طرف سے کہا گیا تھا، ’’افراط زر کی شرح میں اضافہ بدستور جاری ہے اور بجٹ کے مسائل مجموعی اقتصادی استحکام کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔‘‘
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ کی ایک ترجمان نے اخبار فنانشل ٹائمز کی رپورٹ پر کوئی تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ شیڈول کے مطابق پاکستان کے لیے قرض لینے کی مقررہ مدت 30 ستمبر کو ہی ختم ہو گئی تھی۔
بین الاقوامی مالیاتی ادارہ آئی ایم ایف اس طے شدہ قرض کی دو تہائی رقم پاکستان کو دے چکا ہے اور اس تناطر میں آخری قسط مئی سن 2010 میں ادا کی گئی تھی۔ اس کے تین ماہ بعد پاکستان میں ملکی تاریخ کا بدترین سیلاب آیا، جس کے نتیجے میں ہنگامی بنیادوں پر 450 ملین ڈالر کی ایک علیحدہ ادائیگی کی گئی تھی۔ تاہم اس کے بعد سے مالی مشکلات پر قابو پانے کے سلسلے میں پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان کئی مسائل پیدا ہونے لگے۔
آئی ایم ایف کے اندازوں کے مطابق پاکستان میں سن 2011 کے دوران شرح نمو 2.6 فیصد رہے گی اور یہ دیگر ایشیائی ممالک کے مقابلے میں اقتصادی ترقی کی کم ترین شرح ہو گی۔ دوسری طرف آئی ایم ایف ہی کے مطابق رواں برس پاکستان میں اشیائے خورد و نوش کی قیمتوں میں 14 فیصد کے قریب اضافہ ہوا ہے اور یہی شرح آئندہ برس بھی دیکھنے میں آئے گی۔ پاکستان کا شمار اس وقت ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں افراط زر کی شرح دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہے۔
رپورٹ: امتیاز احمد / خبر رساں ادارے
ادارت: مقبول ملک