پاکستان: کال کوٹھڑی میں پڑی مسیحی خاتون کے لیے بڑھتے خطرات
5 مارچ 2016پانچ بچوں کی ماں آسیہ بی بی کو پانی کے ایک پیالے پر ایک مسلمان خاتون کے ساتھ جھگڑے کے دوران مبینہ طور پر مذہب اسلام کی توہین کرنے کے الزام میں سن 2010ء میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ تب سے یہ خاتون جیل میں ہے۔
جمعے کے روز نیوز ایجنسی اے ایف پی سے باتیں کرتے ہوئے آسیہ بی بی کے وکیل سیف الملوک نے بتایا کہ سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر کے قاتل ممتاز قادری کو پھانسی دیے جانے کے بعد مذہبی گروپوں نے اُن کی مؤکلہ کے خلاف ایک نئی تحریک شروع کر دی ہے۔
ممتاز قادری اُن پولیس گارڈز میں سے ایک تھا، جسے گورنر پنجاب کی حفاظت کرنا تھی تاہم اُس نے 2011ء میں اسلام آباد میں سلمان تاثیر کو اس لیے اشتعال میں آ کر فائرنگ کر کے قتل کر دیا تھا کہ انہوں نے توہینِ مذہب کے قوانین میں اصلاحات کے ساتھ ساتھ آسیہ بی بی کی مدد کا بھی وعدہ کیا تھا۔
قادری کے اس اقدام کی بناء پر بہت سے کٹر اسلام پسند اُسے ایک ہیرو کے طور پر دیکھنے لگے تھے اور گزشتہ منگل کو راولپنڈی میں اُس کے جنازے میں بھی کوئی ایک لاکھ افراد شریک ہوئے۔ جنازے کے اس اجتماع میں بھی کئی شرکاء آسیہ بی بی کے خلاف نعرے لگاتے رہے۔
دارالحکومت اسلام آباد کے نواح میں ممتاز قادری کی تدفین کے دو روز بعد اسلام آباد کی لال مسجد کی جانب سے ایک بیان جاری کیا گیا، جس میں حکومت پر زور دیا گیا کہ حکومت کو ’بین الاقوامی دباؤ کے آگے ہتھیار ڈالنے کی بجائے آسیہ بی بی کو جلد از جلد پھانسی دے دینی چاہیے‘۔
اپنی مسیحی برادری کے حقوق کے لیے سرگرم شمعون گِل نے جمعے کے روز اے ایف کو بتایا کہ مذہبی گروپوں کی وجہ سے اس مسیحی خاتون کی ’جان خطرے میں ہے‘۔ گِل نے پولیس کا حوالہ دیا، جس نے اُسے رواں ہفتے کے دوران چوکنا رہنے کے لیے کہا تھا۔
شمعون گِل نے خبردار کیا کہ چاہے حکام مذہبی گروپوں کا دباؤ نہ بھی قبول کریں لیکن یہ گروپ اپنے ہزاروں حامیوں میں سے کسی کو بھی اشتعال دلا کر کوئی بھی کارروائی کروا سکتے ہیں۔
پولیس نے گزشتہ سال اکتوبر ہی میں اس مسیحی خاتون کو جیل میں الگ تھلگ کر دیا تھا کیونکہ تب سپریم کورٹ نے قادری کی سزائے موت برقرار رکھی تھی اور آسیہ بی بی پر حملوں کا خطرہ بڑھ گیا تھا۔
پاکستان میں توہینِ رسالت اور توہینِ مذہب بہت ہی حساس معاملہ ہے اور اس جرم کے مرتکب فرد کے لیے موت کی سزا رکھی گئی ہے۔ اگرچہ آج تک کسی ایک بھی شخص کو اس الزام میں پھانسی نہیں دی گئی لیکن اگر کسی شخص کو یہ سزا سنا دی جائے یا اُس پر محض الزام بھی لگ جائے تو مشتعل افراد کے ہاتھوں اُس پر تشدد اور اُس کی ہلاکت کے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔
گزشتہ سال ایک پاکستانی نژاد برطانوی شہری، جسے توہینِ مذہب کے الزام میں سزا ہوئی تھی، راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ایک گارڈ کی فائرنگ کا نشانہ بنا تھا اور زخمی ہو گیا تھا۔