پاکستان کی بگڑتی معیشت اور ادویات کا متوقع بحران
5 مارچ 2023پاکستان میں فارماسوٹیکل انڈسٹری سے منسلک افراد کا دعوی ہے روپے کی گرتی قدر، درآمدات میں رکاوٹوں اور بے قابو ہوتی مہنگائی کے باعث پیداواری لاگت میں اضافہ ملک میں ادویات بنانے والی تقریباﹰ 40 کمپنیوں کے بند ہونے کا سبب بن سکتا ہے۔ اور تو اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی جانب سے 1.1بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی بحالی میں تاخیر اس نئے پیدا ہوتے بحران کو بدتر بنا رہی ہے۔
ایل سیز کے اجرا میں تعطل
گزشتہ کچھ ماہ کے دوران پاکستان میں ادویات کی پیداوار میں 21.5 فیصد کمی واقع ہوئی ہے، جس کی بنیادی وجہ کمرشل بینکوں کا ایک طویل عرصے سے خام مال کی درآمد میں تعاون سے انکار ہے۔
اس حوالے سے پاکستان فارماسوٹیکل مینوفیکچررز ایسوسی ایشن کے سربراہ سید فاروق بخاری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ بینکوں نے درآمدات کی ادائیگیوں کی ضمانت کے طور پر 'لیٹرز آف کریڈٹ' (ایل سی) کا اجرا اس سال جنوری میں دوبارہ شروع کر دیا تھا۔ لیکن مبادلہ کے ذخائر میں کمی کے پیش نظر انہوں نے (LCs) ایل سیز کی صرف 50 فیصد درخواستیں ہی منظور کی ہیں۔
سید فاروق بخاری کا کہنا تھا کہ ایل سیز کی صرف نصف درخواستیں منظور ہونے کی وجہ ایک طرف ادویات کی قلت ہوگی اور دوسری جانب تھوک فروش اور دوکاندار ذخیرہ اندوزی کریں گے۔
حکام ایل سیز کے اجرا میں تعطل کا ذمے دار ملک کے انتہائی کم زرمبادلہ کے ذخائر کو ٹھہراتے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ یہ مسئلہ تب تک حل نہیں ہوگا جب تک آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکج کی مد میں پاکستان کے لیے 1.1 بلین ڈالر کی قسط جاری نہیں کر دیتا۔
ادویات کی قیمتیں
پاکستان میں زیادہ تر ادویات کا خام مال درآمد کیا جا تا ہے اور چونکہ پچھلے ایک سال کے عرصے میں روپے کی قدر میں خاطر خواہ کمی واقع ہوئی ہے، اس خام مال کی قیمت میں بتدریج اضافہ دیکھا گیا ہے۔ اس لحاظ سے ادویات کی قیمتوں میں بھی اضافہ ناگزیر ہے۔ لیکن پہلے ہی مہنگائی سے تنگ عوام کے متوقع سخت رد عمل کے پیش نظر وزیر اعظم شہباز شریف کی انتظامیہ نے فارماسوٹیکل انڈسٹری کی تمام ادویات کی قیمتوں میں 38.5 فیصد اضافے کی درخواست اب تک منظور نہیں کی ہے۔
پاکستان میں وفاقی حکومت ڈرگ ریگولیٹری اتھارٹی آف پاکستان (ڈریپ) کی سفارشات پر ادویات کی قیمتوں کا تعین کرتی ہے۔ حال ہی میں ڈریپ نے 19 ادویات کی قیمتوں میں معمولی اضافے کی منظوری دی ہے لیکن فارماسوٹیکل انڈسٹری کا کہنا ہے کہ یہ اقدام ناکافی ہے۔
اس حوالے سے سید فاروق بخاری کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قدر محض ہفتوں 230 روپے سے بڑھ کہ تقریباﹰ 270 روپے ہو گئی ہے اور ایندھن اور یوٹیلٹیز کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ ایسے میں کچھ فارماسوٹیکل مصنوعات کی پیداوار مشکل ہوگئی ہے۔
انہوں نے مزید کہا، "ملک میں چار فارماسوٹیکل ملٹی نیشنل کمپنیاں پہلے ہی کاروبار بند کر چکی ہیں اور ایک کو 'فورس میجور' کی طرف جانا پڑا جبکہ 40 مقامی کمپنیوں نے ہمیں رسمی طور پر بتایا ہے کہ پیداواری لاگت میں اضافے کی وجہ سے وہ بھی کاروبار بند کر رہی ہیں۔"
اس کے علاوہ فارماسوٹیکل کمپنیوں کا کہنا ہے کہ ڈالر کی کمی اور تنجتاﹰ ادائیگیوں میں تاخیر کے باعث چین، یورپ اور امریکہ سے درآمد کیے گئے ادویات کے خام مال اور طبی آلات کے کنٹینرز بندرگاہوں پہ پھنسے ہوئے ہیں۔
دو ماہ قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے فارماسوٹیکل انڈسٹری کے مسائل کے حل کے لیے ایک کمیٹی تشکیل دی تھی لیکن اس کی ادویات بنانے والی کمپیوں کے ساتھ ابھی تک کوئی میٹنگ نہیں ہوئی ہے۔
ادویات کی قلت
اس تعطل کے دوران ادویات کے بحران سے نہ صرف مریض متاثر ہو رہے ہیں بلکہ اس صنعت سے منسلک افراد کو اپنا روزگار کھونے کا بھی خطرہ ہے۔ دریں اثنا تمام ملک میں ادویات کی قلتبھی رپورٹ ہوئی ہے۔
پاکستان ڈرگز لائرز فورم کے سربراہ محمد نور مہر کے مطابق ملک میں اس وقت تقریباﹰ 10 فیصد زندگی بچانے والی درآمدی ادویات کی قلت ہے۔ انہوں نے مزید کا کہا کہ پاکستان میں ذیابیطس، سانس کی بیماریوں، اور دل اور گردے کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویات کی بھی قلت ہے اور کچھ درآمدی ادویات اور خام مال کی کلیئرینس بندرگاہوں پہ تاخیر کا شکار ہے۔
پاکستان سے یہ رپورٹس بھی مل رہی ہیں کہ درآمدی طبی آلات کی عدم دستیابی سرکاری ہسپتالوں میں سرجریز میں تاخیر کا باعث بن رہی ہے۔
جمیلہ اچکزئی (م ا، ع ب)