پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ کون: بھارت یا طالبان
8 مئی 2009وفاق کےزیرانتظام پاکستانی قبائلی علاقہ جات سے نکل کرطالبان باغیوں کا مالا کنڈ ڈویژن تک پہنچنا اوراُس پر حکومت پاکستان کی طرف سےاس پیش قدمی کو روکنے میں ناکام رہنا، امریکی صدر باراک اوباما کی انتظامیہ کے لئے ایک عندیہ رہا کہ پاکستانی حکومت امریکہ کے اِس نظریے کو تسلیم نہیں کرتی طالبان باغی ہی پاکستان کی سالمیت کے لئے خطرہ ہے۔
باراک اوباما کی انتظامیہ میں قومی سلامتی کے اعلی ماہرین میں سے ایک یعنی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے کہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی اس نظریے سے متفق نہیں ہے کہ پاکستان کو صرف اسلامی انتہا پسندی سے خطرہ ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان کی سلامتی کی یہ ترجیحی پالیسی مستقبل قریب میں بدلتی نظر نہیں آتی۔
سابق امریکی صدر جورج ڈبلیو بش کی انتطامیہ بھی اس بات سے انکارکرتی رہی کہ ایسا نہیں ہے اور ان کا موقف تھا کہ سابق صدر پاکستان اور ریٹائرڈ جنرل پرویز مشرف کے دور حکومت میں پاکستان کو احساس تھا کہ پاکستان کو اسلامی انتہا پسندی سے خطرہ ہے اور اس کے لئے پرویز مشرف نے اہم اقدامات بھی اٹھائے۔ باراک اوباما کی انتطامیہ بھی سابق صدر بش انتظامیہ کے اسی نظریے کو اختیار کر رہی ہے حالانکہ اس بات کے شواہد ملتےہیں کہ پاکستان اپنی سلامتی کے لئے صرف بھارت کو ہی خطرہ تصور کرتا ہے۔
بھارتی شہر ممبئی میں گزشتہ برس نومبر میں دہشت گردانہ حملوں کے بعد پاکستان اوربھارت کے مابین تناو میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ اور یہ بات قابل فہم تھی پاکستان اس صورتحال میں اپنی توجہ بھارت سے ہٹا کر طالبان پر مرکوز نہیں کر رہا۔
دوسری طرف امریکی فوج کے سربراہ جوائینٹ چیف آف اسٹاف کے چیئر مین ایڈمریل مائیکل موئلن اپنے موقف کے حق میں کئی ماہ تک دلائل دیتے رہے کہ پاکستان اپنی سلامتی کے حوالے سے ترجیحات کا تعین کر رہا ہے اور یہ کہ پاکستانی حکومت اپنی توجہ طالبان پر مرکوز کرنے کے مرحلے میں ہے۔ ایسی اطلاعات بھی گردش کرتی رہیں کہ پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے موئلن کو یقین دہانی کروائی کہ وہ اپنی افواج بھارتی سرحد سے ہٹا کرافغان سرحد پر تعینات کریں گے تاکہ طالبان کا مقابلہ کیا جا سکے۔
لیکن جب پاکستانی فوج، سوات وادی میں قبضہ جمائے طالبان باغیوں کے خلاف کارروائی کرنے میں عدم دلچسپی ظاہر کرتی رہی یا ناکام رہی تو ماہ اپریل کے آغاز سے ہی امریکی دارلحکومت میں پاکستانی افواج کی طرف سے کئے وعدوں کی حقیقت پر سوالات اٹھائے جانے لگے۔
اپریل کے اوائل میں اپنے دورہ پاکستان کے دوران مائیکل موئلن،حکومت پاکستان کی طرف سے سوات وادی میں عسکری کارروائی نہ کرنے پر نالاں نظر آئے۔ اسی بات پر امریکی حکام کے بیانات میں سختی بھی آنا شروع ہو گئی۔ 24 اپریل کو امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن نے حکومت پاکستان پر الزام عائد کیا کہ وہ طالبان کے خلاف مناسب کارروائی نہیں کر رہی ہے۔ کلنٹن نے خبردار کیا کہ پاکستان میں سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورتحال، امریکہ اور تمام دنیا کے لئے ایک شدید خطرہ بن سکتا ہے۔ ایک امریکی ٹیلی وژن کو انٹرویو دیتے ہوئے امریکی وزیر خارجہ نےاس خطرے کا اظہار بھی کیا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیار طالبان باغیوں کے قبضے میں جا سکتے ہیں۔
24 اپریل کے ہی دن جنرل ڈیوڈ پیٹرئس نے مطالبہ کیا کہ حکومت پاکستان اپنے روائتی حریف بھارت کے بجائے طالبان باغیوں کے خلاف کارروائی پر توجہ دے۔ اور اسی دن ہی امریکی وزیر دفاع کا یہ بیان بھی سامنے آیا کہ پاکستان اور امریکہ کی سلامتی کے حوالے سے ترجیحات ایک نہیں ہیں۔ رابرٹ گیٹس نے امید ظاہر کی کہ پاکستان اس بات کو سمجھے کہ طالبان باغی ہی ان کی سالمیت کے لئے خطرہ ہو سکتے ہیں۔
30 اپریل کو جنرل پیٹرائس نے پاکستان کو دھمکایا کہ اگر حکومت پاکستان اور فوج دو ہفتوں کے اندر اندر طالبان باغیوں سے نمٹنے کے لئے کوئی واضح ایکشن نہیں لیتی تو امریکی پالیسی میں ڈرامائی تبدیلیاں لائی جا سکتی ہیں۔ اسی دوران امریکی حکام نے یہ معاملہ بھی اٹھائے رکھا کہ پاکستان کے جوہری ہتھیارغلط ہاتھوں میں جانے کا خطرہ بھی ہے۔
4 مئی کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جنرل جیمز جونز نے ایک نشریاتی ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر حکومت پاکستان طالبان باغیوں کےخلاف جنگ میں کامیاب نہیں ہوتی تو یقینا پاکستان کےجوہری ہتھیاروں کے محفوظ ہاتھوں میں رہنے کے بارے میں سوالات اٹھائیں جائیں گے ۔ جیمز جونز نے کہا کہ اگر یہ جوہری ہتیھار طالبان باغیوں کے ہاتھوں میں چلے گئے تو یہ ایک بھیانک ترین منظر ہوگا۔
تاہم اوباما انتظامیہ کی طرف سے ایسے گرما گرم بیانات نے پاکستانی افواج کو امریکہ کے اسٹریٹیجک مفادات سے مزید دور لان کھڑا کیا۔ 24 اپریل کو پاکستانی افواج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے معمول کے برخلاف ایک عوامی بیان جاری کیا جس میں انہوں نے غیر ملکی طاقتوں کی طرف سے پاکستان کے مستقبل کے بارے میں شکوک ظاہر کرنے کے عمل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ جبکہ 25 اپریل کو پاکستانی فضائیہ کے سربراہ چیف ائیر اسٹاف مارشل راو قمر سلیمان نے کہا کہ پاکستانی فضائیہ اندرونی اور بیرونی خطرات سے نمٹنے کے لئے تیار ہے۔ قمر سلیمان کا یہ بیان بھارت کی طرف سے ممکنہ خطرات کے جواب میں دیا گیا تھا، حالانکہ امریکی انتظامیہ پاکستان پر زور ڈال رہی تھی کہ بھارت ،پاکستان کے لئے ہرگز خطرہ نہیں ہے بلکہ اصل خطرہ طالبان باغی ہیں۔
یکم مئی کو پاکستان جوائیٹ چیف آف اسٹاف کے چیئر میں جنرل طارق مجید نے ایک اعلی سطحی میٹنگ کے بعد پاکستانی جوہری اثاثوں کے غلط ہاتھوں میں جانے کے خدشےکو مغربی ذرائع ابلاغ کا پروپیگینڈا قرار دیا۔ ان غیر معمولی بیانات کے سلسلے سے ظاہر ہوا کہ پاکستانی افواج امریکہ کی طرف سے دباو لینے کو تیار نہیں۔
سن 2007 میں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد گیارہ مرتبہ پاکستان کو دورہ کرنے والے اعلی امریکی فوجی افسر موئلن نے 3 مئی کو ایک امریکی اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ ان کےتجربے کے مطابق پاکستان کے معاملے میں سختی سے کام نہیں لیا جا سکتا۔ موئلن کے اس بیان کے دو دن بعد یعنی 5 مئی کو امریکی وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے امریکی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے کھلم کھلا طور پر پاکستان اور امریکہ کی ترجیحات میں تضاد پر بات کی۔ گیٹس نے کہا کہ پاکستان کی تمام تر توجہ بھارت پر مرکوز ہے۔ گیٹس نے کہا کہ حکومت پاکستان پشتون علاقوں سے اٹھنے والی اسلامی انتہا پسندی سے خوفزدہ نہیں ہے۔ کیونکہ ان کا خیال ہے کہ وہ کسی بھی وقت اس مسلے سے نمٹ سکتے ہیں۔ تاہم انہوں نے کہا کہ طالبان باغیوں کا پھیلاو اور مالا کنڈ ڈویژن میں ان کا قبضہ، پاکستانی حکومت کے لئے خطرے کی گھنٹی بنا۔
رابرٹ گیٹس اورامریکی قومی سلامتی کے دیگر ماہرین تاہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان کی موجودہ صورتحال میں اب حکومت پاکستان طالبان باغیوں کےحوالے سے امریکی ترجیحات پر متفق ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔