پاکستان کے ایک کروڑ مشقتی بچے
پاکستان میں بچوں سے مشقت کروانا قانونا منع ہے لیکن یونیسیف کے اعداد و شمار کے مطابق آج بھی قریب ایک کروڑ پاکستانی بچے زندہ رہنے کے لیے محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ تعداد ملکی آبادی کا پانچ فیصد بنتی ہے۔
معذور کمہار کا محنتی بیٹا
غلام حسین کا والد ٹانگوں سے معذور ہے۔ باپ گھر میں مٹی کے برتن بناتا ہے، جنہیں اپنی ریڑھی پر بیچنے کے لیے بیٹا ہر روز صبح سویرے گھر سے نکلتا ہے۔ غلام حسین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اسے اکثر پانچ چھ سو روپے روزانہ تک آمدنی ہوتی ہے، کبھی کبھی ایک ہزار روپے تک بھی۔ لیکن سارا دن سڑکوں کی خاک چھاننے کے بعد کبھی کبھار وہ رات کو خالی ہاتھ بھی گھر لوٹتا ہے، تب وہ اور اس کے گھر والے بہت اداس ہوتے ہیں۔
تعلیم کے بجائے تربوز فروشی
اسلام آباد کے سیکٹر جی الیون میں تربوز بیچنے والے یہ دونوں بھائی کبھی اسکول نہیں گئے۔ بڑا لیاقت بیگ پانچ سو روپے دیہاڑی پر یہ کام کرتا ہے اور چھوٹا منصور بیگ دو سو روپے یومیہ پر۔ وہ تربوز بیچیں یا کوئی دوسرا پھل، گرمی ہو یا سردی، انہیں سوائے اپنی روزی کمانے کے کسی دوسری چیز کا ہوش نہیں ہوتا۔ لیاقت نے بتایا کہ اس کے گھرانے کی گزر بسر ان دونوں کم سن بھائیوں کی محنت کی کمائی پر ہی ہوتی ہے۔
اس تصویر کی سب سے تکلیف دہ بات کیا ہے؟
ایک معصوم بچہ جو ایک کم سن مزدور بھی ہے۔ نسوار اور نئی پشاوری چپل بیچنے کے ساتھ ساتھ ایک غریب گھرانے کا یہ لڑکا جوتے اور بیگ وغیرہ بھی مرمت کرتا ہے۔ کسی گاہک کے انتظار میں کسی گہری سوچ میں گم اس بچے کی تصویر کا سب سے تکلیف دہ پہلو دائیں طرف کونے میں نظر آنے والی اس کی کاپی ہے۔ جسے اس عمر میں اسکول میں زیر تعلیم ہونا چاہیے تھا، وہ فٹ پاتھ پر جوتے مرمت کر رہا ہے۔
اسکول بیگ کے بجائے دھوپ کے چشمے
اس چودہ سالہ لڑکے محمد حنیف کا تعلق پشاور سے ہے لیکن گزشتہ کچھ عرصے سے وہ اپنے والدین کے ساتھ اسلام آباد رہائش پذیر ہے۔ پہلے وہ اسکول جاتا تھا، لیکن استاد کے ہاتھوں مار پیٹ کے باعث اسے اسکول سے نفرت ہو گئی اور وہ دوسری جماعت سے ہی اسکول سے بھاگ گیا، وہ چند سال تک مکئی کے بھنے ہوئے دانوں کی ریڑھی لگا چکا ہے مگر اب دھوپ کے چشمے بیچتا ہے، جو اس کے نزدیک صاف ستھرا کام ہے اور منافع بھی قدرے زیادہ۔
سب کچھ کہہ دینے والی ایک نظر
آٹھ سالہ بخشو جان، جو اس وقت سے ایسے رنگا رنگ غبارے بیچ رہا ہے، حالانکہ اس کی اپنی عمر ابھی ایسے غباروں سے کھیلنے کی ہے۔ بخشو نے بتایا کہ وہ اور اس کا پورا خاندان یہ غبارے بیچتے ہیں، جو لوگ اپنے بچوں کے لیے خرید بھی لیتے ہیں اور اکثر بغیر کچھ خریدے ہوئے اسے کچھ پیسے بھی دے دیتے ہیں۔ بخشو جان جس طرح اپنے غباروں کو دیکھ رہا ہے، لگتا ہے جیسے اس سوچ میں ہو، ’بیچ دوں یا اپنے ہی پاس رکھ لوں‘۔
عمر بارہ برس، کام کا تجربہ چار سال
اسلام آباد کی ایک مقامی مارکیٹ میں جوتوں کی ایک دکان پر سیلز بوائے کا کام کرنے والے بارہ سالہ جاوید چوہدری، جینز پہنے ہوئے، کو یہ کام کرتے ہوئے چار سال ہو گئے ہیں۔ جاوید کے بقول اس کے والد کا کافی عرصہ قبل انتقال ہو گیا تھا اور والدہ مختلف گھروں میں کام کرتی ہے۔ جاوید نے بتایا، ’’کئی برسوں سے ہم نے عید پر بھی نئے کپڑے نہیں بنائے۔ مہنگائی بہت ہے اور ہمارا گزارہ پہلے ہی بڑی مشکل سے ہوتا ہے۔‘‘
جو خود پہننا چاہیے، وہ بیچنے پر مجبور
سات سالہ وقاص احمد راولپنڈی کے علاقے راجہ بازار کا رہائشی ہے اور وہیں ایک اسٹال پر ریڈی میڈ کپڑے بیچتا ہے۔ گاہکوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے وہ بار بار ’ہر سوٹ، سو روپے‘ کی آواز لگاتا ہے۔ وقاص نے ڈی دبلیو کو بتایا کہ وہ یہ کام دو سال سے کر رہا ہے اور کبھی اسکول نہیں گیا۔ ’’ہمارے خاندان کا کوئی بچہ اسکول نہیں جاتا۔ سب چھوٹی عمر سے ہی اسٹال لگاتے ہیں۔‘‘
ایک بالغ سیلز مین اور دو ’چھوٹے‘
راولپنڈی میں خواتین کے لیے گرمیوں کے ڈوپٹوں کی ایک دکان، جس میں ایک بالغ سیلز مین اور اس کے دو کم سن معاون دیکھے جا سکتے ہیں۔ بچے جن کے اسکول کے بعد کھیلے کودنے کے دن تھے، خواتین کے کڑھائی والے ڈوپٹے بیچنے میں مدد کرتے ہوئے۔ اکثر غریب والدین اپنے چھوٹے بچوں کو سو دو سو روپے روزانہ کے بدلے ایسی دکانوں پر دن بھر کام کرنے کے لیے بھیج دیتے ہیں۔
گھروں میں صفائی کرنے والی کم سن بچیاں
اسلام آباد کی ایک کچی آبادی کی رہائشی یہ بچی اپنے گھر سے دور چند گھروں میں برتن اور کپڑے دھونے کے علاوہ صفائی کا کام بھی کرتی ہے۔ دن کے پہلے حصے میں ایک پرائمری اسکول میں دوسری جماعت کی طالبہ اور سہ پہر کے وقت ایک ایسی کم سن ایماندار گھریلو ملازمہ، جو جانتی ہے کہ اس کے والدین کی مجبوری ہے کہ وہ بھی محنت کر کے کچھ کمائے کچھ اور اس کے خاندان کا گزارہ ہو۔
گرمیوں میں برف، سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی
اسلام آباد میں ایک سڑک کے کنارے محنت کرنے والے یہ دونوں نابالغ بھائی گرمیوں میں یہاں برف بیچتے ہیں اور سردیوں میں بُھنی ہوئی مکئی۔ پاکستان کے ایسے کئی ملین بچوں کو یہ علم ہی نہیں کہ دنیا میں ہر سال بارہ جون کو بچوں سے لی جانے والی مشقت کے خلاف کوئی عالمی دن منایا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ ان پاکستانیوں کے روشن مستقبل کے لیے حکومت کیا اپنے تمام فرائض پورے کر چکی ہے؟
مڈل اسکول کے بجائے موٹرسائیکلوں کی ورکشاپ
ایک موٹر سائیکل ورکشاپ پر کام کرنے والا یہ بچہ اپنی عمر کے لحاظ سے کسی مڈل اسکول کا اسٹوڈنٹ ہونا چاہیے تھا لیکن غربت اور بھوک کے خلاف جنگ ایسے بچوں کے والدین کو اپنی اولاد کو ایسے کاموں پر ڈالے دینے پر مجبور کر دیتی ہے، جہاں سے وہ روزانہ سو دو سو روپے کما کر لا سکیں۔ وہ بچے جو تعلیم یافتہ پیشہ ور ماہرین بن سکتے ہیں، انہیں موٹر سائیکل مکینک یا خوانچہ فروش بنا دینا معاشرے کے لیے گھاٹے ہی کا سودا ہے۔
اس بچے کے ساتھ ناانصافی کا ذمے دار کون؟
محض چند برس کی عمر میں ریڑھی پر پھل بیچنے والے اس بچے کو تو موسم کی سختیوں سے بھی بچایا جانا چاہیے، بجائے اس کے کہ اس کا آج اور آنے والا کل دونوں محرومی کی داستان بن جائیں۔ اس بچے نے بتایا کہ اسے یاد نہیں کہ اس نے اس طرح پھل بیچنے کے علاوہ بھی کبھی کچھ کیا ہو۔ وہ اسکول جانا چاہتا تھا۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکا، تو اس کی اس محرومی کا ذمے دار کون ہے؟