پاکستان کے زیرانتظام کشمیر میں اقتصادی راہداری: بھارت سیخ پا
26 جولائی 2022بھارت نے ان کوششوں پر کڑی تنقید منگل چھبیس جولائی کے روز کی۔ چند روز قبل ہی چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری سے متعلق جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) نے ایک میٹنگ کے بعد متفقہ طور یہ اعلان کیا تھا کہ اس منصوبے میں اگر کسی تیسرے ملک کو بھی دلچسپی ہو، تو وہ مستقبل میں اس سے فائدہ اٹھانے کے مقصد سے اس میں سرمایہ کاری کر سکتا ہے اور پروجیکٹ میں اس کا خیر مقدم کیا جائے گا۔
بھارت کا رد عمل
چین اور پاکستان کے درمیان زیر تعمیر اقتصادی راہداری کے پروجیکٹ پر بھارت پہلے ہی سے اعتراض کرتا رہا ہے اور اب دیگر ممالک کو بھی اس پروجیکٹ میں سرمایہ کرنے کی دعوت دینے پر بھی نئی دہلی کافی ناراض ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے منگل کے روز کہا کہ چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور (سی پیک) کے تحت تمام سرگرمیاں ’فطری طور پر غیر قانونی، ناجائز اور ناقابل قبول‘ ہیں اور اس معاملے میں بھارت کا رویہ اسی انداز کا ہو گا۔
بھارت کا دعویٰ ہے کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کا علاقہ بھی اسی کا حصہ ہے اور اسی حوالے سے وہ سی پیک منصوبے پر مسلسل تنقید کرتا رہا ہے۔ دو روز قبل ہی بھارتی وزیر دفاع نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ’بھی بھارت کا حصہ ہے جسے ایک نہ ایک دن بھارت میں ضم ہونا ہے۔ کوئی بھی طاقت اسے ہم سے جدا نہیں کر سکتی‘۔
وزارت خارجہ کے ترجمان نے کہا، ’’ہم نے نام نہاد سی پیک منصوبوں میں تیسرے ممالک کی مجوزہ شرکت کی حوصلہ افزائی سے متعلق رپورٹیں دیکھی ہیں۔ کسی بھی فریق کی جانب سے ایسی کوئی بھی کارروائی بھارت کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’بھارت نام نہاد سی پیک منصوبوں کا مستقل طور پر سختی سے مخالف رہا ہے، جو کہ بھارتی علاقے میں ہیں اور جن پر پاکستان نے غیر قانونی طور پر قبضہ کر رکھا ہے۔‘‘
ارندم باگچی کا کہنا تھا، ’’اس طرح کی سرگرمیاں فطری طور پر غیر قانونی، ناجائز اور ناقابل قبول ہیں، اور بھارت کی جانب سے ان کے ساتھ اسی سوچ کے مطابق سلوک کیا جائے گا۔‘‘
پروجیکٹ میں دیگر ممالک کوشمولیت کی دعوت
چین اور پاکستان کی اقتصادی راہداری سے متعلق جوائنٹ ورکنگ گروپ (جے ڈبلیو جی) کی حال ہی میں ہونے والی تیسری میٹنگ کے بعد ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ باہمی فائدہ مند تعاون کے لیے کھولے گئے راستوں سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے تیسرے فریقوں کا بھی اس پروجیکٹ میں خیر مقدم ہے۔
اس حوالے سے پاکستانی دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا تھا، ’’ایک کھلے اور جامع پلیٹ فارم کے طور پر دونوں فریقوں نے سی پیک کے ذریعے کھولے گئے باہمی فائدہ مند تعاون کے مواقع سے فائدہ اٹھانے میں دلچسپی رکھنے والے تیسرے فریق کا خیر مقدم کیا ہے۔‘‘
چین اور پاکستان کے درمیان یہ اقتصادی راہداری نقل و حمل اور توانائی کے مختلف منصوبوں کا ایک مجموعہ ہے، جو پاکستان میں گوادر سے چینی علاقے سنکیانگ میں کاشغر تک ایک راہداری پر مرکوز ہے۔
بھارت اس کی مخالفت اس لیے کرتا ہے کہ مجوزہ اقتصادی راہداری پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے بھی گزرتی ہے۔ خطہ کشمیر ایک متنازعہ علاقہ ہے، جس کے ایک بڑے حصے پر بھارت کا کنٹرول ہے جبکہ اس کا ایک حصہ پاکستان کے زیر انتظام ہے۔
دونوں ملکوں کے درمیان یہ ایک دیرینہ تنازعہ ہے جبکہ کشمیر کی آبادی کا ایک حصہ اس خطے میں ایک علیحدہ آزاد ریاست کے قیام کا حامی بھی ہے۔