’ پاکستان گولن تنظیم کے تحت چلنے والے ادارے بند کر دے گا‘
2 اگست 2016ترک وزیر خارجہ نے، جو اس وقت اپنے ایک دو روزہ سرکاری دورے پر پاکستان میں ہیں، اسلام آباد میں پاکستانی وزیر اعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایسے تمام ادارے پاکستان اور دنیا کی سلامتی کے لیے خطرہ ہیں۔ چاوش اولو کے مطابق فتح اللہ گولن کی تحریک ہر اس ملک کے لیے خطرہ ہے جہاں وہ کسی بھی صورت میں موجود ہے۔
ترکی میں گزشتہ ماہ ایک ناکام فوجی بغاوت کے بعد سے ترک حکومت اب تک ہزاروں فوجیوں اور سرکاری ملازمین کو گرفتار اور برطرف کر چکی ہے۔ وہ اس بغاوت کی سرپرستی کا الزام امریکا میں جلاوطن ترک مبلغ فتح اللہ گولن پر لگاتی ہے۔ اسی وجہ سے ترکی میں گولن کی تحریک کو دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے۔ اسی لیے ترک حکومت کا پاکستان سے بھی مطالبہ ہے کہ وہ اپنے ہاں کام کرنے والے گولن کی تنظیم کے تمام تعلیمی اور ثقافتی ادارے بند کر دے۔ گولن اپنے خلاف ترک حکومت کے عائد کردہ الزامات سے انکار کرتے ہیں۔
اسلام آباد کے جی ٹین سیکٹر میں قائم پاک ترک اسکول کی ایک برانچ کے پرنسپل اور انچارج اینی ژیٹ نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان کے گیارہ مختلف شہروں میں ’پاک ترک‘ کے چھبیس کے قریب اسکول اور کالجز قائم ہیں۔ صرف اسلام آباد میں چھ اسکول ہیں۔ ان اسکولوں میں تقریباﹰ گیارہ ہزار بچے پڑھتے ہیں۔ ان اسکولوں میں پڑھانے والے ترک نژاد اساتذہ کی تعداد تقریباﹰ ایک سو ہے جبکہ نو سو کے قریب پاکستانی اساتذہ بھی اسٹاف کا حصہ ہیں۔ اینی ژیٹ نے کہا کہ ترکی پاکستان میں کوئی تعلیمی کاروبار نہیں کر رہا بلکہ اکثر سرگرمیاں رضا کارانہ بنیادوں پر ہوتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہمارا ایسا کوئی خفیہ ایجنڈا نہیں ہے، جس کے باعث پاکستان میں ہمارے اسکول بند کیے جائیں۔ ہمارا مقصد بچوں کو پاکستانی ثقافت اور ترک کلچر دونوں سے متعارف کرانا ہے اور گولن تحریک سے ہمارا کوئی واسطہ نہیں ہے۔‘‘
ایک پاکستانی سرکاری ملازم نے، جو تعلیمی اداروں کے طور پر پاک ترک اسکولوں کو گزشتہ ایک عشرے سے جانتے ہیں اور ان پر اعتماد کرتے ہیں، اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میں سرکاری ملازم ہوں۔ میری تین بیٹیاں یہاں پڑھ رہی ہیں۔ یہاں بہت اچھی تعلیم دی جاتی ہے۔ دیگر والدین سے بھی بات ہوتی رہتی ہے۔ سبھی والدین تمام اساتذہ سے بھی بہت خوش ہیں۔ پاکستان میں اس وقت پاک ترک اسکولوں میں زیر تعلیم ہزاروں بچوں کا تعلیمی مستقبل خطرے میں ہے۔ اگر یہ اسکول بند ہوئے تو میرے گھرانے جیسے ہزاروں خاندان شدید مسائل کا شکار ہو جائیں گے۔‘‘
اس پاکستانی والد نے اسلام آباد حکومت سے پرزور مطالبہ کرتے ہوئے کہا، ’’اس مسئلے کو انسانی بنیادوں پر حل کیا جائے کیونکہ یہاں اساتذہ بہت محنت سے بچوں کو پڑھاتے ہیں۔ ہمیں کبھی کوئی شکایت نہیں ہوئی۔ ویسے بھی مجھے یہ سمجھ نہیں آتی کہ دنیا میں جہاں جہاں بھی سیاسی مسائل پیدا ہوتے ہیں، اس کا خمیازہ عوام ہی کو کیوں بھگتنا پڑتا ہے؟‘‘
پاک ترک اسکول کی اسلام آباد میں قائم شاخوں میں سے ایک میں زیرتعلیم اے لیول کی ایک طالبہ رمشہ رائے نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’جب مجھے پتہ چلا کہ ہمارا اسکول ترک حکومت بند کرانے کی کوشش کر رہی ہے، تو مجھے بہت برا لگا۔ مجھے یہاں پڑھتے ہوئے آٹھ سال ہو گئے ہیں۔ یہ میرا اور میری کلاس کا آخری تعلیمی سال ہے۔ ہمارا اسکول اچانک بند ہو گیا تو ہماری پڑھائی کا بہت نقصان ہو گا۔ میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ میرے اسکول کے زیادہ تر اسٹودنٹس کو گولن تحریک کا علم تک نہیں ہے اور نہ ہی یہاں ہمیں اس سے متعلق کوئی درس دیا جاتا ہے۔‘‘
پاکستانی دارالحکومت میں ایک دوسرے پاک ترک اسکول کی اے لیول کی ایک طالبہ نے اپنی رائے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر یہ اسکول بند ہوئے، تو اس عمل سے ان کی اور ہزاروں دیگر نوجوانوں کی تعلیم اور زندگیوں پر بہت برا اثر پڑے گا: ’’ہماری حکومت کو چاہیے کہ ہماری مدد کرے، نہ کہ وہ صرف ترک حکومت کو خوش کرنے کی کوشش کرے۔‘‘
اس بارے میں معروف ماہر تعلیم اور پشاور یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر ڈاکٹر قبلہ ایاز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’آج کل پاکستان اور ترکی ایک دوسرے کے بہت قریب آ رہے ہیں، خاص طور پر پنجاب میں ترک حکومت کے تعاون سے بہت سے پراجیکٹ پر کام ہو رہا ہے۔ ان حالات میں میرا خیال ہے کہ حکومت پاکستان ترک حکومت کو ناراض نہیں کرے گی۔ شاید یہ بھی نہ ہو کہ یکدم پاک ترک اسکولوں کی فوری بندش کا فیصلہ کر لیا جائے۔ انہیں شاید مرحلہ وار بند کرنے کی کوشش کی جائے گی یا پھر ترک حکومت سے پوچھا جائے گا کہ کیا کوئی اور ایسے ادارے پاکستان میں ہیں، جو ان کے لیے قابل بھروسہ ہوں، جن میں ان اسکولوں کو ضم کر دیا جائے۔ اس لیے کہ یکدم بندش سے ہزار ہا طلبہ و طالبات کا تعلیمی کیریئر بری طرح متاثر ہو گا۔‘‘