1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی اور افغان تارکين وطن کا يہاں کيا کام ہے؟

عاصم سليم29 اپریل 2016

مہاجرين کے بحران کے آغاز ہی سے يونان نے پناہ کے ليے يورپ پہنچنے والے ہزارہا تارکين وطن کے ليے اپنے دل اور دروازے کھلے رکھے تاہم اب سرحدی بندشوں کے بعد ايسا معلوم ہوتا ہے کہ يونانی شہريوں کی مہمان نوازی ختم رہی ہے۔

https://p.dw.com/p/1If6N
تصویر: Reuters/Yannis Behrakis

مہاجرين کے بحران کے حل کے ليے يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی متنازعہ ڈيل پر عملدرآمد کے آغاز سے قريب ايک ماہ بعد يونان ايک عجيب صورتحال سے دوچار ہے۔ پچاس ہزار کے قريب تارکين وطن يونان ميں پھنسے ہوئے ہيں اور ان کا مستقبل غير واضح ہے۔ ڈيل پر عملدرآمد سے قبل تک يونان محض ايک اہم ٹرانزٹ مقام تھا اور پناہ گزين وہاں پہنچنے کے بعد مغربی يورپ کی جانب بڑھ جاتے تھے تاہم اب يونان کو ايسی صورتحال کا سامنا ہے جس ميں ممکنہ طور پر اسے پناہ گزينوں کی طويل المدتی بنيادوں پر ميزبانی کرنا پڑ سکتی ہے۔

اپنی تاريخ کے سبب يونان ميں تارکين وطن کو يورپ کے ديگر ممالک کے مقابلے ميں ذرا مختلف انداز سے ديکھا جاتا رہا ہے اور ابتداء ميں انہيں خوش آمديد کيا گيا۔ برطانيہ کے لندن اسکول آف اکنامکس ميں يورپی سياست اور انٹرنيشنل رليشنز کے ايسوسی ايٹ پروفيسر سپائيروس ايکونوڈوميس کے مطابق، ’’اب يہ معاشرتی، معاشی اور سياسی مسئلہ بن چکا ہے۔ چھوٹی برادریاں اپنے علاقوں ميں مہاجر کيمپوں کا قيام نہيں چاہتيں کيونکہ وہ وہاں طويل المدتی بنيادوں پر بھی قائم رہ سکتے ہيں۔‘‘

يونانی امور کے ماہر کی بات کو چند حاليہ واقعات سے تقويت ملتی ہے۔ شمالی يونان ميں ويريا کے مقام پر رہائشيوں نے ايک مہاجر کيمپ ميں کٹے ہوئے خنزير سر پھينکے اور ايک مذہبی رہنما کو يہ دھمکياں ديتے ہوئے سنا گيا کہ اگر مہاجرين نے قريبی گرجا گھر کے معاملات ميں مداخلت کی کوشش کی، تو انہيں نتائج بھگتنا پڑيں گے۔

يونان ميں اب بھی پچاس ہزار کے قريب پناہ گزين پھنسے ہوئے ہيں
يونان ميں اب بھی پچاس ہزار کے قريب پناہ گزين پھنسے ہوئے ہيںتصویر: Jodi Hilton

دريں اثناء پس منظر ميں انتہائی دائيں بازو کی جماعت گولڈن ڈان بھی ايسے مواقع کا فائدہ اٹھاتی ہے۔ جماعت کی جانب سے ايک اسلام کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کی مخالفت ميں ايک ريلی کا اہتمام کيا گيا تھا ليکن تصادم کے سبب ان کے يہ ارادے پايہ تکميل تک نہ پہنچ سکے۔

ڈی ڈبليو کی نمائندہ ماريانہ کاراکولاکی ايک برس سے زائد عرصے سے اڈومينی سے رپورٹنگ کر رہی ہيں۔ وہ بتاتی ہيں کہ انہوں نے پچھلے چند ماہ ميں لوگوں کے رويے ميں تبديلی ديکھی ہے۔ کاراکولاکی نے بتايا، ’’پچھلے دو ماہ ميں ميں نے ديکھا ہے کہ مقامی لوگ شامی اور ديگر ممالکے کے پناہ گزينوں ميں تفريق کر رہے ہيں۔ شامی شہريوں کو پناہ گزينوں کے طور پر ديکھا جاتا ہے ليکن لوگ يہ سوال اٹھاتے ہيں کہ پاکستانی اور افغان شہری وہاں کيوں ہيں؟‘‘ ان کے بقول مقامی لوگ افغان اور پاکستانيوں کے وہاں قيام کو ناجائز مانتے ہيں۔ ڈی ڈبليو کی نمائندہ ماريانہ کاراکولاکی کے بقول مہاجرين کے بارے ميں رپورٹنگ کرنے پر انہيں قوم پرست يونانيوں کی طرف سے جان کی دھمکياں تک موصول ہوئی ہيں۔

ماہرين کا ماننا ہے کہ يورپ ميں کئی مقامات پر سرحدوں کی بندش کے نتيجے ميں يونان ميں بے چينی پائی جاتی ہے اور ايک ايسی صورتحال ميں کہ جب يہ ملک خود اقتصادی طور پر زيادہ مضبوط نہيں، معاملات اور بھی زيادہ گھمبير دکھائی دے رہے ہيں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید