1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
جرائمپاکستان

پاکستانی بچوں میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، وجوہات کیا ہیں؟

10 اگست 2022

خبرنامہ سنتے ہوئے ایک خبر سماعت سے گزری کہ لاہور میں تین بچوں، جن کی عمریں تیرہ سے پندرہ سال کے درمیان تھیں، نے ایک موٹر سائیکل چوری کر لی۔ خبر کی مزید تفصیل تو مل نہ سکی لیکن یہ خبر ایک سوچ چھوڑ گئی۔

https://p.dw.com/p/4FMzj
Pakistan Smog in Lahore | Spielplatz
تصویر: Getty Images/AFP/A. Ali

خبر میں بتائی گئی عمر وہ عمر ہے، جس میں بچے یا تو پڑھنے میں مصروف ہوتے ہیں یا پھر ان کو پڑھائی کے ساتھ کھیل کی فرصت نہیں ہوتی۔ یہی وہ نوجوان نسل ہے، جس نے آگے بڑھ کر اس ملک کی ترقی میں ہاتھ بٹانا ہے۔

مگر ایسا کیوں ہے کہ اس عمر کے بچے جرائم کرتے ہیں۔ اگر اس بات کی تحقیق کی جائے تو اس کے معاشی اور معاشرتی پہلوؤں کے علاوہ نفسیاتی پہلو بھی نکلتے ہیں۔

ہمارے لیے ان وجوہات کو جاننا بے حد ضروری ہے، جو نوعمر بچوں کو جرائم کی دلدل میں دھکیلنے کے لیے کافی ہیں۔ بچے مستقبل کے معمار اور آنے والے اچھے وقت کی امید ہوتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ اوائل عمری میں ہی بچوں کی درست ترجیحات کا تعین کرنے میں ان کی مدد کی جائے۔

کیونکہ ابتدائی ذہنی نشوونما میں معاشرتی، معاشی، نفیساتی اور جذباتی عوامل شامل ہوتے ہیں۔ بچہ اپنے ماحول اور ارد گرد سے زیادہ سیکھتا ہے بہ نسبت سکھائے جانے کے۔ ایسے میں پر آسائش ماحول کے عادی اور افلاس میں پیدا ہونے والے بچوں کی ترجیحات اور رویے مختلف ہوں گے۔

جب بچہ جوان ہوتا ہے تو اس کے دل میں بہت سی خواہشات بھی جنم لیتی ہیں۔ وہ قیمتی موبائل بھی لینا چاہتا ہے، وہ گھومنا پھرنا بھی چاہتا ہے، وہ اچھی جگہ ہوٹلنگ بھی کرنا چاہتا ہے، وہ چاہتا ہے کہ اس کی جیب بھری رہے، وہ جب چاہے جہاں چاہے خرچ کرے۔ اور جب اس کی ان خواہشات کو گھر سے انکار کیا جاتا ہے تو وہ انتقامی کیفیت کا شکار ہو جاتا ہے، جو اس کو جرم کی جانب لے جاتی ہے۔ بعض اوقات بچوں کے کلاس فیلو یا دوستوں کے طعنے بھی اس کیفیت کو ابھارتے ہیں۔ اس لیے بچے جرائم کی جانب مائل ہوتے ہیں اور کسی کا نقصان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتے۔

بچوں پر تشدد اور ان کے حقوق کی پامالی اس سنگین مسئلے کی بڑی وجہ ہے۔ ہمارے ہاں سب سے مظلوم طبقہ بچوں کا ہے کیونکہ جب ان کے کھیل کود اور پڑھنے کے دن ہوتے ہیں تو ان پر ذمہ داریاں ڈال دی جاتی ہیں۔ جب باپ بے روزگار ہو گا تو بچہ کسی نہ کسی ناجائز طریقے سے کمانے کا سوچے گا۔  یہاں ذمہ داری ریاست پر لاگو ہوتی ہے، جو اس سے مکمل پہلو تہی برت رہی ہے۔ اسی لیے مستقبل کی غیر یقینی صورت حال بھی اس کی ایک وجہ ہے۔

DW Urdu Blogerin Arifa Rana
عارفہ راناتصویر: privat

پاکستان کی 30 فیصد آبادی غربت کی لائن سے نیچے رہ رہی ہے اور آدھے سے زیادہ آبادی کی خواہش یہ ہے کہ وہ سفید پوش طبقے کی مانند 'عزت‘ سے زندگی گزار لیں۔ مگر موجودہ مہنگائی کے دور میں یہ سب ممکن نظر نہیں آتا ہے۔  ایسے میں گھر کا خرچہ چلانا ہی مشکل ہے نہ کہ بچوں کی بڑھتی عمر کی ضروریات یا خواہشات پوری کی جا سکیں۔

 ایسے میں بچے، جن کے اندر ہر نئی چیز حاصل کرنے یا نیا کام کرنے کا ولولہ شدید موجود ہوتا ہے، وہ اپنی زندگی کو بدلنے کے لیے مختلف شارٹ کٹس اور ناجائز ذرائع کو اپناتے ہیں اور ایسے میں جرائم پیشہ لوگوں کے ہاتھ آ جانا کوئی بڑی بات نہیں۔ جرائم پیشہ عناصر ان کے ہاتھوں سے قلم کتاب چھین کر ہتھیار پکڑانے میں ذرا بھی متعامل نہیں ہوتے۔

پاکستان کے قریباً تمام شہروں میں ایسے بچے، جن کی عمریں 8 سے 15 سال کے درمیان ہیں، وہ نہ صرف چوری، اٹھائی گیری اور جیب تراشی میں ملوث ہیں بلکہ ان میں سے کئی بڑی بڑی وارداتوں میں بھی شامل ہیں۔

 ایک خبر کے مطابق کچھ عرصہ قبل پنجاب پولیس نے گوجرانوالہ سے 13 رکنی ایسے گروہ کو گرفتار کیا تھا، جو نوعمر لڑکوں پر مشتمل تھا اور بڑے ہی منظم طریقے سے پارکنگ سے گاڑیاں اور موٹر سائیکل چوری کرتے تھے۔ اسی طرح کے گروہ لاہور میں بھی سرگرم ہیں، جو بارونق علاقوں میں وارداتیں کرتے ہیں۔

لاہور پولیس کی رپورٹ کے مطابق سال 2021ء میں سٹریٹ کرائمز کے 3000 سے زائد کیسز رپورٹ ہوئے، جن میں کم و بیش 30 فیصد کیسز میں ملوث بچوں کی عمریں 14 سے 18 سال کے درمیان تھیں۔

اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں 1424 بچے مختلف جرائم کے تحت جیلوں میں ہیں۔ ان میں سے سب سے زیادہ تعداد پنجاب میں ہے اور اس میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے، جس کی وجہ بچوں میں منشیات کا استعمال بھی بتایا جاتا ہے، اس ضرورت کو پورا کرنے کے کیے جرائم کیے جاتے ہیں۔

ہمارے ملک میں مجرم بچوں کی بابت بہت کم توجہ دی گئی ہے۔ مجرم بچوں کے لیے بورسٹل جیل کی سہولت  پورے ملک صرف چھ شہروں میں ہے، جن میں سے سب سے بڑا بہاولپور بورسٹل ہے۔ مجرم بچوں کی تعلیم اور تربیت کا کوئی انتظام نہیں ہے تاکہ وہ رہا ہونے کے بعد اچھے شہری بن سکیں۔ یہاں اس ضمن میں ایک بات اور غور طلب ہے کہ یہ تمام ادارے لڑکوں کے لیے ہیں، لڑکیوں کے لیے ایک بھی ادارہ موجود نہیں۔

جنرل مشرف کے دور میں آرڈینینس Juvenile Justice System Ordinance 2000 (JJSO)  منظور کیا گیا تھا۔ یہ قانون 18 سال سے کم عمر بچوں کے تحفظ اور ان کی اصلاح کے لیے بنایا گیا تھا۔ اس جامع قانون کے تحت بچوں کے  لیے الگ سے عدالتیں قائم کی گئیں۔

مذکورہ قانون کی شق 10 کے تحت انچارج تھانہ بچے کو قابل ضمانت جرم میں رہا کر دے گا۔ ناقابل ضمانت جرائم میں فوری طور پر بچے کو عدالت میں پیش کیا جائے گا اور عدالت جرم کی نوعیت کے حساب سے بچوں کو اصلاحی مراکز یا اصلاحی افسروں کے حوالے کریں گی۔ علاوہ ازیں ضرورت پڑنے پر ماہر نفسیات کی خدمات بھی حاصل کی جائیں گی۔

میری نظر میں بچوں کو منفیت سے بچانے کا حل یہی ہے کہ بچوں کو تعلیم کے علاوہ کھیل یا کسی بھی جسمانی سرگرمی میں مشغول رکھا جائے تاکہ اس کا دماغ صحت مند رہے اور اچھے اور برے کی تمیز کرتا رہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ایسا ماحول میسر نہیں ہے اور کسی حد تک چائلڈ لیبر بھی اس کی وجہ ہے۔

جب بچے کو ابتدائی عمر میں کام کاج میں لگا دیا جاتا ہے تو وہ والدین کی طرف سے عدم توجہی کا شکار ہو جاتا ہے اور بالآخر برائی کو اپنا لیتا ہے کیونکہ وہ اس کو آسان راستہ لگتا ہے۔ یہاں ریاست کو بھی غریب بچوں کے حوالے سے ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔

 

نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو  کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔