پاکستانی دیہی خواتین، محنت میں برابر لیکن حقوق میں پیچھے
15 اکتوبر 2017اتوار پندرہ اکتوبر کو منائے جانے والے دیہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر پاکستان میں یہ بات حقوق نسواں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں اور سماجی ماہرین کے لیے پریشانی کا باعث ہے کہ پاکستان میں، جو آبادی کے لحاظ سے دنیا کے بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے، دیہی علاقوں کی عورتوں کو شہری علاقوں کی خواتین کی نسبت محنت تو کہیں زیادہ کرنا پڑتی ہے لیکن اپنی محنت کے معاوضے اور حقوق کی جدوجہد میں دیہات میں رہنے والی عورتیں شہری علاقوں کی خواتین سے کہیں پیچھے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی معاشرے میں تیز رفتار ترقی اور سماجی مساوات کو یقینی بنانے کے لیے خواتین کو بھی مردوں کے برابر حقوق دینے، خاص طور پر دیہی علاقوں کی محنت کش خواتین کو ان کے جملہ طبی، تعلیمی اور قانونی حقوق دیے جانے کی اشد ضرورت ہے۔
پاکستانی دیہی علاقوں میں خواتین کن سماجی روایتی عوامل کی وجہ سے ہمیشہ پیچھے ہی رہی ہیں، ماہرین عمرانیات اس کی وضاحت یوں کرتے ہیں،’’ کھیتوں میں کام کرنے، مویشی پالنے اور بچوں کی پرورش کرنے کے ساتھ ساتھ امور خانہ داری بھی چلانے والی ان خواتین کو اکثر نہ تو جائیداد میں کوئی حصہ دیا جاتا ہے، نہ ہی کوئی زمین ان کی ملکیت ہوتی ہے، تعلیم میں بھی وہ بہت پیچھے رہ جاتی ہیں اور طبی سہولیات سے تو ان کی ایک بہت بڑی اکثریت محروم ہی رہتی ہے۔‘‘
پاکستان میں دیہی خواتین کی صورت حال کے بارے میں انہی خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عورت فاؤنڈیشن کے ڈائریکٹر عاصم ملک کا ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا،’’ پاکستان بنیادی طور پر ایک زرعی ملک ہے۔ اس کی ستّر فیصد سے زائد آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ دیہی علاقوں کی خواتین وہاں کی معیشت، خاص کر زراعت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ اس کے باوجود ان کی حالت اچھی نہیں۔ وجہ وہ حالات ہیں، جن کا ان کو مقامی طور پر سامنا رہتا ہے۔ صحت کے حوالے سے بھی اور اقتصادی طور پر بھی۔‘‘
عاصم ملک نے ایک سوال کے جواب میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ایک طرف صحت کی سہولیات کا فقدان ہے تو دوسری طرف دیہی خواتین معاشی طور پر بھی خود مختار نہیں۔ ان کا اپنی ہی آمدنی پر کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ اس حوالے سے کافی کام کیا بھی جا رہا ہے۔ لیکن جب تک عورتوں کی سیاسی عمل میں مؤثر شمولیت ممکن نہیں ہوتی، وہ عملی طور پر استحکام حاصل نہیں کر سکتیں۔ پاکستان میں چند گنی چنی خواتین ایسی ہیں جن کا تعلق تو دیہی علاقوں سے ہے لیکن جو آج قومی یا صوبائی پارلیمانوں کی ارکان ہیں۔ لیکن یہ تعداد انتہائی کم ہے۔ جب تک خواتین سیاسی نمائندگی میں بھر پور حصہ نہیں لیں گی، ان کی حالت بہتر نہیں ہو سکتی۔‘‘
پاکستان کے دیہی علاقوں میں خواتین میں خواندگی کی شرح اور مجموعی تعلیمی صورتحال جاننے کے لیے ڈی ڈبلیو نے جب معروف ماہر تعلیم اور تجزیہ نگار ڈاکٹر ناظر محمود سے گفتگو کی، تو انہوں نے کہا، ’’پاکستان میں خواندگی کا مجموعی تناسب چالیس فیصد ہے۔ لیکن بلوچستان اور وہاں کے قبائلی علاقوں میں یہ شرح مزید کم ہو کر پانچ اور دس فیصد کے درمیان رہ جاتی ہے۔ تقریباﹰ یہی شرح صوبے خیبر پختونخواکے قبائلی علاقوں میں بھی دیکھنے میں آتی ہے۔‘‘
ڈاکٹر ناظر محمود سے جب یہ پوچھا گیا کہ پاکستانی دیہی علاقوں کی خواتین میں انتہائی کم شرح خواندگی کی بڑی وجوہات کیا ہیں، تو انہوں نے بتایا، ’’پہلا مسئلہ یہ کہ دیہی علاقوں میں تعلیمی ادارے کم ہیں اور وہ اکثر کافی فاصلے پر ہوتے ہیں۔ پھر پدرشاہی معاشرے میں بچیوں کو اسکول پہنچانے اور واپس لانے میں گھروں کے مرد بھی اپنی ذمہ داریاں پوری نہیں کرتے اور ٹرانسپورٹ کی مقامی سہولیات کا فقدان بھی ایک وجہ ہے۔‘‘
ڈاکٹر ناظر نے چند دیگر اہم وجوہات کی نشاندہی کرتے ہوئے مزید کہا، ’’دیہی علاقوں میں پڑھی لکھی خواتین کی شرح انتہائی کم ہونے کی وجہ سے دیہات میں بچیوں کی لیے خواتین ٹیچرز کا انتظام بھی تقریباﹰ نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔
پاکستان میں ویمن ایڈ ٹرسٹ کی ڈائریکٹر شاہینہ خان اپنی ٹیم کے ہمراہ گزشتہ کئی برسوں سے ملک کے مختلف شہروں کی جیلوں میں بند خواتین اور ان کے بچوں کے حقوق کے لیے کام کر رہی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کے ساتھ بات چیت میں دیہی علاقوں کی خواتین کے عالمی دن کی مناسبت سے ایک سوال کے جواب میں بتایا، ’’جب ہماری تنظیم نے کام شروع کیا تھا، تو پاکستانی جیلوں میں سہولیات کا فقدان تھا۔ جیلوں میں بند دیہی علاقوں کی خواتین تو ناخواندگی کے باعث اکثر اپنے حقوق سے بالکل ناواقف ہوتی تھیں۔ آج بھی دیہی خواتین کی صورت حال زیادہ نہیں بدلی۔ لیکن ہماری تنظیم اور ہمارے ساتھی کارکن ان خواتین قیدیوں کی قانونی اور سماجی مشاورت کرنے کے علاوہ ان کی مدد کرتے ہیں کہ وہ اپنی مدد آپ کر سکیں۔‘‘
پاکستان میں خواتین، خاص کر دیہی علاقوں کی خواتین کے بارے میں عوام اور میڈیا کی سطح پر کیا تاثر پایا جاتا ہے، اس بارے میں پاکستانی میڈیا میں بہتر صنفی نمائندگی کے موضوع پر کام کرنے والے محمد اقبال خان نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’ملک کے ایک بڑے حصے، خاص کر پنجاب اور سندھ میں زراعت کے شعبے میں خواتین بہت محنت کرتی ہیں۔ لیکن انہیں نہ تو ان کی محنت کا معقول معاوضہ ملتا ہے اور نہ ہی ان کی خدمات کو کھلے دل سے تسلیم کیا جاتا ہے۔‘‘