پاکستانی سمریم کورٹ کی جانب سے نیب افسر کی ہلاکت کا نوٹس
23 جنوری 2013احتساب کے قومی ادارے (نیب ) سے منسلک کامران فیصل گزشتہ جمعے کو ایک سرکاری ہاسٹل کے کمرے میں مردہ پائے گئے تھے۔ کامران فیصل کرائے کے بجلی گھروں میں مبینہ بدعنوانی کے الزامات پر وزیراعظم کے خلاف تحقیقات میں معاون کے فرائض سرانجام دے رہے تھے۔ پوسٹ مارٹم کی ابتدائی رپورٹ میں ان کی موت کی وجہ خودکشی بتائی گئی تھی تاہم ان کے لواحقین اور ساتھی افسران کا دعویٰ ہے کہ کامران کو قتل کیا گیا۔
بدھ کو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے کرائے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی سے متعلق عدالتی فیصلے پرعملدرآمد کیس کی سماعت کی۔ سماعت کے دوران چیئرمین نیب نے پراسیکیوٹر جنرل کے کے آغا کے ذریعے کامران فیصل کی موت کے حوالے سے بات کرنے کی اجازت طلب کی لیکن عدالت نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ اگر چیئرمین کو اپنے وکیل پر اعتماد نہیں تو وہ اسے ہٹا کر خود آ جائیں۔ چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ کامران فیصل کی موت پر پوری قوم کو صدمہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر کوئی شخص بدعنوانی کے خلاف کھڑا ہو تو ہم سب کا فرض ہے کہ اس کا تحفظ کریں۔
نیب کے پراسیکیوٹر جنرل کا کہنا تھا کہ کامران فیصل کی موت کے حوالے سے ان کے ادارے پر الزامات لگائے جا رہے ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ اس معاملے کی شفاف انکوائری ہو۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کا ایک آفیسر مر گیا اور آپ کو یہ تک معلوم نہیں کہ ایف آئی آر درج ہوئی ہے کہ نہیں۔ اس کے بعد چیف جسٹس نے کامران فیصل کی موت کے حوالے سے رجسٹرار آفس کی طرف سے بھجوائے گئے نوٹ کو آئینی درخواست میں تبدیل کرتے ہوئے سماعت کے لیے بینچ نمبر 2 میں منتقل کر دیا۔جسٹس جواد ایس خواجہ اور جسٹس خلجی عارف پر مشتمل یہ بینچ کل سے اس مقدمے کی باقاعدہ سماعت شروع کرے گا۔
کرائے کے بجلی گھروں میں بدعنوانی کے بارے میں مقدمے کے ایک درخواست گزار اور مسلم لیگ ق کے رہنما فیصل صالح حیات نے عدالتی حکم کے بعد ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے کہا '' مجھے یقین ہے کہ اس کے بعد کامران فیصل کی جو المناک موت ہے اس کی تہہ تک پہنچنے میں ہمیں ضرور مدد ملے گی اور مجھے یقین ہے کہ بہت جلد رینٹل پاور کیس میں سپریم کورٹ کا جو اصل حکم ہے جس میں انہوں نے ملزمان کا نام لیا ہے، جن کی سرفہرست راجہ پرویز اشرف بھی ہیں وہ قانون کے کٹہرے میں کھڑے ہونگے ۔''
واضح رہے کہ حکومت نے کامران فیصل کی موت کی تحقیقات کیلیے سپریم کورٹ کے سابق جج جاوید اقبال پر مشتمل کمیشن تشکیل دیا تھا تاہم کامران فیصل کے لواحقین اور ساتھیوں نے اس پر عدم اعتماد کا اظہار کیا تھا۔
ادھر بدھ ہی کے روز سپریم کورٹ نے نیب کی طرف سے یہ استدعا مسترد کر دی کہ جب تک کامران فیصل کی موت کے مقدمے کا فیصلہ سامنے نہیں آتا اس وقت تک کرائے کے بجلی گھروں کے مقدمے پر تحقیقات روک دی جائیں۔ اس پر چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ ایسا ممکن نہیں اور اس مقدمے کی تحقیقات جاری رہیں گی۔
اسی مقدمے میں ایک اور درخواست مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ نیب ہر قیمت پر اس کیس میں ملوث اعلیٰ حکومتی شخصیات کو بچانا چاہتی ہے ۔ ڈوئچے ویلے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ
'' نیب اس کیس میں ملزمان کی معاونت کر رہی ہے، کیونکہ موجودہ حکومت اور حکمران اس کیس میں ملزم ہیں اور نیب اس حکومت کا ادارہ ہے تو وہ کس طرح اس کی تحقیقات کر سکتا ہے وہ تو تاخیر کرینگے۔ لیکن میرا خیال ہے کہ نیب اب بذات خود بہت بڑے مخمصے میں پھنس گئی ہے۔''
سپریم کورٹ نے کرائے کے بجلی گھروں سے متعلق مقدمے کی سماعت 29 جنوری تک ملتوی کر دی ۔ ادھر چیئرمین نیب نے عدالت کے باہر صحافیوں سے غیر رسمی بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ نیب عدالتی احکامات پر عمل کرتے ہوئے اس کیس میں تحقیقات جاری رکھے گی۔
رپورٹ:شکور رحیم
ادارت: زبیر بشیر