پاکستانی ضلع گجرات کے لوگ یورپ کیوں جانا چاہتے ہیں؟
29 اکتوبر 2015ناروے، برطانیہ اور جرمنی سمیت کئی يورپی ملکوں میں پاکستانی ضلع گجرات کے باسی آباد ہیں۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ غیر قانونی طور پر اور بہت سے خطرات مول لے کر ان دنوں یورپ جانے والے تارکين وطن میں بھی بڑی تعداد گجرات کے شہریوں کی ہے۔ پاکستان میں ضلع گجرات کے علاقے کھاریاں کو تو ’منی یورپ‘ بھی کہا جاتا ہے۔ سرائے عالمگیر، گجرات، لالہ موسٰی اور اس سے ملحقہ علاقوں میں بہت بڑی تعداد میں ایسے گھرانے موجود ہیں، جن کے رشتہ دار، عزیز اور قریبی جاننے والے یورپ میں آباد ہیں۔
اوورسیز پاکستانیز کمیشن پنجاب کی گجرات ميں قائم شاخ کے چیئرمین اور رکن پنجاب اسمبلی چوہدری شبیر احمد نے ڈی ڈبلیو سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ کئی ملین کی آبادی والے ضلع گجرات اور اس کے مضافاتی علاقوں سے یورپ جانے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ اندازوں کے مطابق یہ تعداد قريب تین لاکھ ہے۔ چوہدری شبیر کا خیال ہے کہ گجرات میں بڑی زمینیں اور بڑی صنعتیں نہ ہونے کی وجہ سے لوگ معاشی مشکلات کا شکار ہیں۔ چھوٹے کاشتکاروں کے لیے اس بارانی علاقے میں کاشتکاری کر کے گھر چلانا بہت مشکل ہے۔
انہوں نے کہا، ’’یہ لوگ بیرون ملک سے آنے والے افراد کو جب یہاں کھلا پیسہ خرچ کرتے دیکھتے ہیں، تو ان کے دلوں میں بھی بیرون ملک جانے کی خواہش مچلنے لگتی ہے۔‘‘ پنجاب اسمبلی کے رکن شبير احمد کے بقول بعض لوگ دشمنیوں کی وجہ سے بھی یورپ جاتے رہے ہیں کیونکہ ماضی ميں وہاں سیاسی پناہ ملنا کافی آسان تھا۔ انہوں نے بتايا، ’’سیاسی پس منظر کے حامل میرے والد چوہدریوں کے مخالف تھے۔ سن 1981 میں ان کے قتل کے بعد حالات کچھ ایسے ہو گئے تھے کہ ہم سات بھائیوں کو اٹلی منتقل ہونا پڑا تھا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں شبير احمد نے بتايا کہ غیر قانونی طریقے سے باہر جانے کے خلاف قانون سازی موجود ہے۔ موجودہ حکومت سختی بھی کر رہی ہے لیکن اس پر عملدرآمد میں بعض اوقات مسائل کا سامنا رہتا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’جب تک گجرات میں بیروزگاری، غربت اور بد امنی رہے گی، غیر قانونی طریقے سے یورپ جانے والوں کو روکنا آسان نہیں ہوگا۔‘‘
ضلع گجرات کے ڈسٹرکٹ کوآرڈینیشن آفیسر لیاقت علی چھٹہ بتاتے ہیں کہ پاکستان سے یورپ جانے والے لوگوں کو بعد ازاں متعدد مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یورپ میں پیدا ہونے والے بچوں کی پیدائش کا پاکستان میں تاخیر سے اندراج، ان کی غیر موجودگی میں جنم لینے والے جائیداد کے جھگڑے اور یورپ اور پاکستان میں پائے جانے والے ثقافتی فرق کی وجہ سے ايسے افراد کو اپنی بچیوں کی شادی کے معاملے تک ميں بھی مشکلات کا سامنا رہتا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ پاکستان میں وفاقی تحقیقاتی ادارہ لوگوں کو غیر قانونی طریقے سے یورپ بھیجنے والے ٹریول ایجنٹوں کے خلاف کارروائیاں کرتا رہتا ہے لیکن ادارے کے مطابق اس مسئلے کا طويل المدتی بنيادوں پر حل گجرات کی معیشت ميں بہتری ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ڈی سی او گجرات نے بتایا کہ گجرات سے یورپ جانے والے باشندے کئی بہت اچھے کام بھی کر رہے ہیں۔ صرف ضلع گجرات میں 183 سرکاری اسکولوں کی تزئین و آرائش اور ان کی بحالی کے بعد یہی لوگ انہیں چلا بھی رہے ہیں۔ لیاقت علی چھٹہ کے بقول انہوں نے یہاں ايک ’کِڈنی سینٹر‘ بھی قائم کر رکھا ہے۔
جرمنی کے رہائشی اور ایک کاروباری شخصیت چوہدری مظہر اقبال ویونہ کا تعلق بھی ضلع گجرات سے ہے۔ وہ چھ مہینے یورپ اور چھ مہینے پاکستان میں گزارتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ وہ چھتیس سال پہلے معاشی بہتری کی تلاش میں پشاور، کابل، ترکی کے شہر استنبول، بلغاریہ، یوگوسلاویہ اور اٹلی سے ہوتے ہوئے جرمنی پہنچے تھے۔ انہوں نے بتایا کہ انہیں یورپ جا کر سکون، اطمینان اور تحفظ کا احساس ہوتا ہے۔ اگر یہ چیزیں ان کے اپنے ملک پاکستان میں انہیں مل جاتیں، تو وہ کبھی بھی جرمنی میں مستقل قیام نہ کر تے۔
ایک سوال کے جواب میں چوہدری مظہر اقبال نے کہا کہ پاکستانی بچوں کے یورپ جانے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن ان بچوں کو ہنر اور تعلیم سے آراستہ کیا جانا چاہیے تاکہ وہ یورپ جا کر وہاں کی ترقی میں بھی اچھا کردار ادا کر سکیں۔ اس سوال کے جواب میں کہ یورپی ملکوں سے لاکھوں کی تعداد میں گجرات آنے والے لوگوں کے سرمائے سے گجرات کی اقتصادی حالت کیوں نہیں بدلی، ان کا کہنا تھا کہ مناسب رہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ پراپرٹی میں پیسہ ضائع کر بیٹھے اور کچھ لوگوں نے سی این جی پمپ لگا کر وسائل برباد کر دیے۔
جب چوہدری مظہر اقبال سے يہ دريافت کيا گيا کہ یورپ میں قانون کی پابندی کے ساتھ زندگی گزارنے والے گجراتی جب اپنے شہر لوٹتے ہیں تو قانون کی پابندی کیوں نہیں کر تے، تو ان کا کہنا تھا، ’’معاشرے کے مخالف چلنا آسان نہیں ہے۔ جس کی چھٹی ختم ہو رہی ہو، اسے پیسے دے کر بھی کام کرانا پڑے تو وہ گریز نہیں کرتا۔ پاکستان میں آدمی کے پاس جتنے مرضی پیسے ہوں، جب تک اس کے ساتھ چار چھ مسلح بندے نہ ہوں، اسے ’اہم‘ خیال نہیں کیا جاتا۔ پاکستان میں بڑھتا ہوا معاشی تفاوت لوگوں کو بیرون ملک جانے پر مجبور کر رہا ہے لیکن اصل بات یہ ہے کہ اب یورپ میں بھی زندگی مشکل ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ پر بڑھتا ہوا معاشی دباؤ اب وہاں بسنے والوں کے رویوں پر بھی اثر انداز ہو تا جا رہا ہے۔‘‘
ڈسٹرکٹ گجرات میں پچھلے ڈیڑھ عشرے سے خدمات سر انجام دینے والے پولیس آفیسر، انسپکٹر اسد چیمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’گجرات میں بسنے والے لوگ عجیب و غریب عادات کے حامل ہیں۔ یہاں سے جو شخص باہر جاتا ہے وہ اپنے پیچھے رہ جانے والوں کو بھی ضرور وہاں بلاتا ہے۔ یہاں بہت سے ايسے قیمتی مکانات بھی ہیں، جن پر کروڑوں روپے لاگت آئی ہے لیکن وہ رہائشیوں کے بغیر ویران پڑے ہیں۔ پردیسی کبھی کھبار آ کر ان گھروں کو رونق بخشتے ہیں۔‘‘
انہوں نے بتايا، ’’تحصیل کھاریاں ایک چھوٹا سا قصبہ ہے، جسے منی یورپ بھی کہا جا تا ہے۔ یہاں کئی بڑے بينکوں کی شاخیں بھی ہیں۔ اس کے بازاروں میں آپ ڈالروں کے ذریعے بھی لین دین کر سکتے ہیں۔ باہر سے آنے والے گجراتی باشندے پیسے دے کر کام کرانا بھی سیکھ گئے ہیں۔ ان کی ایک فٹ زمین پر کوئی قبضہ کر لے تو وہ یہ قبضہ چھڑوانے کے لیے ایک کروڑ روپیہ بھی خرچ کر سکتے ہیں۔ یہ صورتحال بھی یہاں کے باسیوں کو ’اٹریکٹ‘ کرتی ہے۔‘‘
اسد چیمہ کہتے ہیں کہ گجرات کا جرائم والا کلچر بھی بعض اوقات لوگوں کو باہر جانے پر مجبور کرتا ہے۔ ان کے بقول، ’’اگر یہاں کوئی شخص پاسپورٹ بنوا لے تو اس کے دشمنوں میں خوف پھیل جاتا ہے کہ اب کوئی واردات ہونے والی ہے۔ یہاں گیارہ بجے کوئی وقوعہ ہوتا ہے اور واردات کر نے والے فرد کی سیالکوٹ سے دبئی کے ليے پرواز بارہ بجے کی کنفرم ہوتی ہے۔‘‘ کئی عشرے پہلے امریکيوں نے کھاریاں کینٹ بنائی تھی اور اس کے کچھ عرصے بعد منگلہ ڈیم تعمیر ہوا تھا۔ ان دونوں جگہوں سے نقل مکانی کر نے والے لوگوں کو امریکی اور یورپی ملکوں میں آسان رسائی ملی۔ انہوں نے اس سہولت سے نہ صرف خود استفادہ کیا بلکہ ارد گرد کے علاقوں کے لوگوں کو بھی پورا پورا فائدہ پہنچایا۔ اسد کے بقول گجرات میں لوگوں کے یورپ جانے کا رحجان اب بھی برقرار ہے لیکن جائز طریقے سے یورپ جانے کے طریقے جیسے جیسے مشکل ہوتے جا رہے ہیں، ویسے ہی غیر قانونی طریقے سے باہر جانے والوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔
منڈی بہاؤالدین کے ایک نواحی گاؤں چک نمبر دو شمالی میں رہنے والے مدثرحسین چوہدری نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ اس علاقے کے غریب لوگ اپنے خاندانوں کی معاشی حالت بدلنے کے لیے پر خطر طریقےاختیار کر کے بھی باہر جانے کے خواہشمند ہیں کیونکہ ان کے بیرون ملک جانے کی صورت میں ان کا بھیجا ہوا ایک یورو، ایک ڈالر یا ایک پاؤنڈ بھی پاکستانی کرنسی میں اتنے پیسے دے دیتا ہے، جتنے کسی مزدور کے لیے ان علاقوں میں روزانہ کمانا آسان نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دیہاتوں میں نوجوانوں کے غیر قانونی طریقوں سے باہر جانے کی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ سب کو پتہ ہے کہ لانچ میں یا کنٹینر میں جانے والے یورپ میں کن مشکلات سے گزرتے ہیں لیکن یہاں اس کا ذکر کر کے کوئی بھی اپنا پیٹ ننگا نہیں کرنا چاہتا۔
مدثرحسین چوہدری نے مزيد بتایا کہ غیر قانونی طریقوں سے لوگوں کو بیرون ملک بھجوانے والے اکثر ٹریول ایجنٹ ایئر ٹکٹنگ کے کاروبار کی آڑ میں یہ دھندہ کرتے ہیں اور بہت سے تو ایسے بھی ہیں جن کا کوئی دفتر تک نہیں ہوتا۔ ان کے بقول علاقے میں اگر کسی نوجوان سے یہ پوچھا جائے کہ تم کیا کرتے ہو، تو جواب ملتا ہے کہ ’میرے چار بھائی باہر ہیں۔‘ مدثر چوہدری نے کہا کہ عام طور پر یورپ جانے والے ان پڑھ لوگ ’مزے میں‘ دکھائی دیتے ہیں جبکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد جب وہاں جا کر ٹیکسی چلاتے ہیں، تو انہیں اچھا نہیں لگتا۔ ’’میرا ایک بھائی یورپ میں رہتا ہے، اس کی شادی وہاں ہوئی ہے۔ لیکن میرے دل میں یورپ جانے کی خواہش کبھی پیدا نہیں ہوئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ میر ے پاس دس مربع زمین ہے اور مجھے یورپ جیسی سہولتیں پاکستان میں ہی دستیاب ہیں۔‘‘
گجرات سے متعدد لوگوں کو یورپ بھجوانے والے ایک ٹریول ایجنٹ نے اپنی شناخت ظاہر نہ کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ٹریول ایجنٹوں پر سادہ لوگوں کو ورغلانے کا الزام غلط ہے۔ ان کے مطابق، ’’غلط طریقوں سے باہر جانے کے خواہشمند لوگ دراصل خود لالچی ہوتے ہیں اور دولت سمیٹنے کے چکر میں ہر صورت باہر جانے پر اصرار کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو راستے میں پانیوں اور جنگلوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ کئی مرتبہ وہ حادثوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور انہیں تشدد کا سامنا بھی کر نا پڑتا ہے۔‘‘
اس ٹريول ايجنٹ نے مزيد انکشاف کيا، ’’گجرات سے یورپ پہنچانے کا سارا کام کوئی ایک ایجنٹ نہیں کرتا بلکہ یہ کام مختلف علاقوں اور مختلف ملکوں میں سرگرم ایجنٹوں کے ایک منظم نیٹ ورک کے ذريعے کيا جاتا ہے۔ ہر کوئی اپنے حصے کا کام کر کے اپنے پیسے لے لیتا ہے۔ یورپ جانے والے عام طور پر اپنی زمینیں، بھینسیں اور خواتین کے زیورات بیچ کر غیر قانونی طور پر باہر جاتے ہیں۔ انہیں امید ہوتی ہے کہ جب وہ یورپ پہنچیں گے تو تھوڑے ہی عرصے میں ان کے قرض اتر جائیں گے۔ پھر نیا گھر بن جائے گا۔ اور پھر جلد ہی ان کے پاس نئی گاڑی ہو گی اور یوں ان کے دن سنور جائیں گے۔‘‘
ماہرین کا خیال ہے کہ گجرات کے باسیوں کے غیر قانونی طور پر یورپ جانے کے رحجان کو روکنے کے لیے آگہی مہم چلانے، نوجوانوں کے لیے قرضہ اسکیم شروع کرنے اور نوجوانوں کو فنی تعلیم فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔