پاکستانی عوام احتجاج کے نام پر املاک کو آگ کیوں لگاتے ہیں؟
13 مئی 2023سرکاری اعداد و شمار کے مطابق حملوں، توڑ پھوڑ، تشدد اور جلاؤ گھیراؤ میں مبینہ طور پر ملوث 25 سو سے زائد افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ پاکستانی عوام احتجاج کے نام پر ملکی املاک کو آگ کیوں لگاتے ہیں اور اس عمل کے پیچھے کونسی سماجی و نفسیاتی وجوہات ہیں کہ لوگوں کو ملکی اثاثہ جات نذر آتش کرنا باعث تسکین محسوس ہوتا ہے۔
’جب ریاست تشدد کی زبان بولے تو شہری محبت کے گیت نہیں گاتے ‘
نامور مصنفہ نور الہدی شاہ کہتی ہیں، ”ریاست نے لوگوں کے دل جیتنے کے بجائے انہیں خوف سے غلام بنانا پسند کیا، جب ریاست تشدد کی زبان بولے تو شہری محبت کے گیت نہیں گاتے۔" ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا، ''21 فروری 1952 کو ڈھاکہ یونیورسٹی میں طلبہ پرامن طریقے سے اپنی زبان کا حق مانگ رہے تھے مگر ریاست نے نہ صرف گولی چلائی بلکہ اس سے بھی پہلے غداری کے سرٹیفکیٹ بانٹنے شروع کر دیے گئے تھے۔ خدائی خدمت گاروں جیسے پرامن مظاہرین کو دن دیہاڑے بھون ڈالا گیا۔ یہ وہ زبان تھی، جس میں ریاست نے اپنے شہریوں سے بات کی اور پھر شہریوں نے بھی یہی زبان سیکھ لی، جس کا مظاہرہ گزشتہ تین روز اور اس سے پہلے کئی بار دیکھا گیا ہے۔"
’شناخت کا بحران‘ اور 'پاکستانی ریاست کا نظریاتی سراب‘ کے مصنف احمد اعجاز بھی اس سے ملتی جلتی رائے رکھتے ہیں۔ ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”پاکستان کے تشکیلی مراحل میں ریاست کے لیے ایسی شناخت قائم کرنا ایک چیلنج تھا، جو انڈیا سے مختلف بلکہ برعکس ہو۔ اس مقصد کے لیے مقامی شناختوں کو دبایا گیا اور ایک ایسے نظریاتی سراب کو پروان چڑھایا گیا، جو غیر فطری تھا۔ پھر اس غیر فطری نظریہ مملکت سے لوگوں کو جوڑنے کے لیے پروپیگنڈہ اور طاقت کا استعمال کیا گیا۔ اس کا ایک نقصان یہ ہوا کہ جو وسائل لوگوں کو بہتر معیار زندگی دینے پر صرف ہونا چاہیے تھے، وہ نظریاتی سرحدوں کی حفاظت اور ان کے محافظین پر ہونے لگے۔ یوں ریاست اور عوام کے درمیان خلیج وسیع ہوتی گئی۔ یہاں تک کہ عوام ریاست اور ریاستی املاک کو اپنی چیز نہیں سمجھتی، سو جب موقع ملے، آگ لگانے سے نہیں ہچکچاتی۔"
عوام سرکاری املاک کو آگ لگا کر تسکین کیوں محسوس کرتے ہیں؟
قائد اعظم یونیورسٹی سے وابستہ سوشیالوجی ڈیپارٹمنٹ کے سربراہ ڈاکٹر محمد زمان کا ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ”ویلفیئر سٹیٹ میں ریاست شہریوں کو بہتر معیار زندگی دیتی ہے، جس کے جواب میں لوگ ریاست اور اس کے اداروں کا نہ صرف احترام کرتے ہیں بلکہ ان کی حفاظت بھی کرتے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ادارے ہماری آسان اور خوشگوار زندگی کی ضمانت ہیں جبکہ پاکستان میں اس کے برعکس ہے۔"
ان کے بقول، ”پاکستان ویلفئیر اسٹیٹ نہیں بن سکا، سو لوگ سرکاری اداروں کو اپنی مشکلات کا سبب سمجھتے ہیں اور موقع ملتے ہی ان پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ جس ملک میں عام شہری علاج، تعلیم اور روزگار جیسی بنیادی سہولیات کے لیے ترستے ہوئے زندگی گزار دے، وہ کیسے ریاست اور ریاستی اداروں کا احترام کر سکتا ہے۔"
کالم نگار وسعت اللہ خان ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں، ”ہر سماج میں فرسٹریشن نکالنے کے کچھ نہ کچھ ذرائع ہوتے ہیں اور بالعموم یہ صحت مند سرگرمیاں ہوتی ہیں، جیسے کھیل اور فنون لطیفہ۔ ہمارے ہاں ان سب کا دروازہ مدت ہوئی بند پڑا ہے۔ سو عوام کے اندر یہ غم و غصّہ جمع ہوتا رہتا ہے اور اچانک پھٹ پڑتا ہے۔ عوام کی فرسٹریشن کو ایک چنگاری کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی بھی واقعہ اس کا متحرک بن سکتا ہے، جیسے تین دن پہلے عمران خان کی گرفتاری بنی۔ اس دوران کوئی بھی پرتشدد سرگرمی عوامی تسکین کا باعث ہوتی ہے، خاص طور پر اگر اس کا رخ ان کی طرف ہو، جنہیں عوام ذمہ دار سمجھتے ہیں۔"
’ہجوم آسانی سے تشدد کرتا ہے‘
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے 'پاکستانی معاشرہ، ایک سماجی و نفسیاتی تجزیہ‘ کے مصنف اور معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہد مسعود خٹک کہتے ہیں، ”ہجوم کے سر انفرادی ذمہ داری نہیں ہوتی، اس لیے وہ آسانی سے تشدد کرتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ اتنے افراد کسی سرکاری عمارت یا گاڑی کو جلا رہے ہیں تو کونسا مجھ پر ذمہ داری عائد ہو گی؟‘‘
وہ مزید ایک اہم نکتے کی طرف اشارہ کرتے ہیں، ”مختلف علاقوں میں بسنے والے افراد کی اجتماعی نفسیات بھی مختلف ہوتی ہے۔ جو کچھ لاہور میں ہوا، یہ سندھ یا بلوچستان کی عوام نہیں کر سکتی تھی۔ کیوں کہ انہیں پتہ تھا ریاست انہیں تہس نہس کر دے گی۔ جبکہ پنجاب یا خیبرپختونخوا کی مڈل کلاس مختلف اجتماعی نفسیات رکھتی ہے۔ انہیں پتہ ہے، ہم جو بھی کر لیں، ہمیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔"
جہاں تک تسکین کے نفسیاتی پہلو کا تعلق ہے تو ڈاکٹر شاہد خٹک کہتے ہیں، ”جیسے بچہ گھر کی چیزیں توڑ کر ماں باپ کو سزا دے رہا ہوتا ہے ویسے ہی مشتعل ہجوم ریاستی املاک نذر آتش کر کے ریاست کو سزا دے رہا ہوتا ہے۔ بچے کی طرح اس عمل سے شہریوں کو بھی تسکین ملتی ہے۔"
نور الہدی شاہ کہتی ہیں، ”عوام تب تک ملک کی بقا سے وابستگی نہیں رکھتے، جب تک ملک ہر فرد کی بقا کی ضمانت نہیں بنتا۔ اس لیے پہلی ذمہ داری ریاست کی ہے۔ وہ لوگوں کو احساس دلائے کہ وہ ان کے لیے ہے۔ وہ ان کے غم اور مشکلات سے بیگانہ نہیں بلکہ ساتھ کھڑی ہے۔ اس کے بعد ہی عام شہریوں کا ملک پر اعتماد بحال ہو گا اور ان کی ذہنی و جذباتی جڑت آپس میں، ملک کے ساتھ اور ملکی اداروں کے ساتھ مضبوط ہو گی۔"
احمد اعجاز اس حوالے سے زیادہ پرامید نہیں۔ وہ کہتے ہیں، ”دو دن پہلے وزیراعظم نے قوم سے خطاب کیا۔ اس میں 'شہیدوں اور غازیوں کی یادگاروں کی بے حرمتی‘ پر تو گہرے دکھ کا اظہار کیا گیا مگر اس دوران مرنے والے سات شہریوں کا پوری تقریر میں ذکر تک نہ تھا۔ کیا شہباز شریف ان کے وزیر اعظم نہیں تھے؟ کیا یادگاروں کی اہمیت انسانی زندگی سے زیادہ ہے؟"