پاکستانی فوج کو ’موجودہ عدالتی نظام پر اعتبار نہیں‘
9 مئی 2024ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل احمد شریف نے نو مئی 2023 ء کے ان واقعات کے تناظر میں اپنی حالیہ پریس کانفرنس میں اپنی توجہ اس موضوع پر مرکوز رکھی، جسے پاکستان کے موجودہ سیاسی منظر نامے پر غیر معمولی اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔ گزشتہ سال پاکستان کی مقبول سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف یا پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی گرفتاری کے بعد نو مئی کو فوجی تنصیبات پر کیے گئے حملوں کے بعد سے عمران خان اور ان کی پارٹی کے خلاف سخت ریاستی کریک ڈاؤن ملک کے اندر اور باہر خاصی تشویش کا باعث بنا ہوا ہے۔
رواں برس فروری میں ہونے والے انتخابات اور ان کے نتائج اور پھر ملک میں نئی حکومت سازی کا عمل جس انداز میں تکمیل تک پہنچا، اسے بھی بڑی حد تک نو مئی 2023 ء کے واقعات کے تناظر میں دیکھا جاتا ہے۔ اس بارے میں جمہوریت اور قانون کی بالا دستی پر یقین رکھنے والوں کی طرف سے پاکستان کے مقتدر حلقوں، ارباب اختیار اور ذمہ دار اداروں کے کردار پر سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔
اس پس منظر میں میجر جنرل احمد شریف کے پریس کانفرنس میں دیے گئے بیانات پر تبصرے کے لیے ڈی ڈبلیو نے پاکستان کے معروف سیاسی تجزیہ کار اور نمل یونیورسٹی اسلام آباد سے منسلک سیاسیات کے پروفیسر طاہر نعیم ملک سے رابطہ کیا۔ پروفیسر ملک نے ان بیانات کے بارے میں کہا کہ میجر جنرل احمد شریف نے روایتی موقف دہرایا ہے تاہم اس پریس کانفرنس کے بارے میں پروفیسر ملک کا کہنا تھا، ''حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی غیر مصدقہ خبروں کے مطابق عمران خان اور فوج کے مابین مذاکرات ہو رہے ہیں۔ یا انصار عباسی صاحب کی خبر تھی کہ جنرل ریٹائرڈ خالد نعیم لودھی ایک مشن لے کے دونوں کے درمیان معاملات سلجھانے اور تلخیوں کو کم کرنے کے لیے کردار ادا کر رہے ہیں۔ تو ڈی جی آئی ایس پی آر کی پریس کانفرنس میں دیے گئے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ روایتی موقف میں کوئی نرمی نہیں آئی اور حالات جوں کے توں ہی رہیں گے۔‘‘
ڈی جی آئی ایس پی آر کی طرف سے تحریک انصاف پر نو مئی کے واقعات پر معافی مانگنے اور ان کی مذمت کرنے جیسی شرائط عائد کرنا اور ان اقدامات کو تعمیری سیاست کی جانب پیش رفت سمجھنے اور اس طرح عمران خان کی سیاسی نظام میں واپسی کا واحد رستہ قرار دینے کو پروفیسر ملک اس حقیقت کی طرف ایک اشارہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان میں جاری سیاسی نظام ہائبرڈ ہے۔
تحریک انصاف کے موقف کے بارے میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے پروفیسر طاہر نعیم ملک نے کہا کہ پی ٹی آئی یہ سمجھتی ہے کہ اس تنازعے میں اسٹیبلشمنٹ خود ایک فریق ہے جو غیر منصفانہ اور غیر جانبدارانہ انکوائری نہیں کرا سکتی جبکہ قومی سلامتی کے ادارے یہ سمجھتے ہیں کہ نو مئی کے واقعات میں انکوائری کی ضرورت نہیں کیونکہ ان کے شواہد تو موجود ہیں۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطالبات کا جواب
پاکستان تحریک انصاف کے بانی سربراہ عمران خان نے گزشتہ برس نو مئی کے واقعات کے لیے معافی مانگنے کے مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے فوج کے مطالبات کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز اڈیالہ جیل میں صحافیوں سے بات چیت کے دوران کہا، ''معافی مانگنے کی ذمہ داری مجھ پر کیوں عائد ہونا چاہیے؟‘‘
عمران خان کرپشن سے لے کر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی تک کے متعدد الزامات کا سامنا کرتے ہوئے اپنے موقف پر قائم ہیں۔ بدھ کے روز صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیر اعظم نے یہ بھی کہا کہ وہ اپنی پارٹی کے 2014 ء کے دھرنے کے بارے میں کسی بھی چھان بین کے لیے تیار ہیں۔ میجر جنرل احمد شریف نے اپنی پریس کانفرنس میں اس دھرنے کی عدالتی تحقیقات کی طرف اشارہ کیا تھا۔
اس سوال کے جواب میں کہ اسٹیبلشمنٹ ایک انکوائری کمیشن بنانے کے پی ٹی آی کے مطالبے سے گریزاں کیوں ہے، ماہر سیاسیات طاہر نعیم ملک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''فوج اپنے معاملات کسی اور ادارے کے سپرد نہیں کرنا چاہتی، چاہے وہ عدلیہ یا پھر ملکی پارلیمان ہی کیوں نہ ہو۔‘‘
فوج کے اس رویے کی وجوہات پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا، ''فوج نے پہلے فوجی عدالتوں کا قانون پاس کروایا۔ یہ امر ظاہر کرتا ہے کہ انہیں موجودہ عدالتی نظام پر اعتبار نہیں ہے۔‘‘
پروفیسر طاہر ملک نے پی ٹی آئی کے اندر پائی جانے والی تقسیم کی بات بھی کی اور کہا کہ تحریک انصاف میں دو گروپ پائے جاتے ہیں۔ اس میں سے ایک کا ماننا ہے کہ پارٹی کو مسلسل محاذ آرائی سے نقصان ہوگا۔ دوسرا گروپ محاذ آرائی جاری رکھنے کے حق میں ہے اور اس کی سیاسی سوچ یہ ہے کہ موجودہ حکومت زیادہ عرصہ نہیں چلے گی اور عمران خان دونوں امکانات استعمال کر رہے ہیں۔
پروفیسر طاہر نعیم ملک کے مطابق پاکستان میں عمران خان اور پی ٹی آئی سے متعلق تنازعے میں اطراف کا موقف غیر لچک دار ہونے کے باعث موجود سیاسی بحران کے حل کے امکانات ضعیف ہیں۔