پاکستانی فوجی قیادت مقامی طالبان سے مذاکرات کی حامی
12 اکتوبر 2013اس سے قبل ملکی وزیر اعظم نواز شریف نے گزشتہ ماہ طالبان کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک منصوبہ تجویز کیا تھا۔ طالبان کی مسلح عسکریت پسندی کی وجہ سے پاکستان میں گزشتہ ایک دہائی کے دوران کم از کم چالیس ہزار افراد مارے جا چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق پاکستان آرمی کے سربراہ کی جانب سے ان ممکنہ مذاکرات کی حمایت کے بعد اب یہ عمل آگے بڑھنے کا امکان پیدا ہو گیا ہے۔
فوج کے زیر تربیت کیڈٹس کی پاسنگ آؤٹ تقریب سے خطاب کے موقع پر اشفاق پرویز کیانی کا اس حوالے سے کہنا تھا، ’’اگر ان مسائل کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کر لیا جائے تو پاکستانی فوج کو خوشی ہو گی۔‘‘ تاہم اس موقع پر انہوں نے یہ بھی کہا کہ یہ مذاکرات پاکستانی آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے کیے جانے چاہیئں۔
کیانی چھ برس تک پاکستانی فوج کی قیادت کرنے کے بعد نومبر میں ریٹائر ہو رہے ہیں۔ طالبان کے ساتھ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں ان کا کہنا تھا کہ فوج مکمل طور پر تیار ہے۔ مذاکرات میں ناکامی کی صورت میں بھر پور طاقت کا استعمال کیا جائے گا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ طاقت کا استعمال آخری آپشن ہوگا۔
اپنے اس خطاب میں مجموعی ملکی صورت حال کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ پاکستان اس وقت مشکل دور سے گزر رہا ہے اور اقوام کی تاریخ میں مشکل وقت آتے رہتے ہیں لیکن وہی قومیں آگے بڑھتی ہیں جو مشکل وقت کو اپنے لیے چیلنج سمجھتی ہیں۔
انہوں نے ملک میں طالبان کی بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی کے تناظر میں کہا کہ وہ وقت یاد کریں جب شدت پسند اسلام آباد سے 100 کلومیٹر دور رہ گئے تھے۔ اس وقت یہ فوج ہی تھی، جس نے انہیں پسپا ہونے اور پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا تھا۔ اس موقع پر انہوں نے سن 2009 میں سوات میں کیے گئے ملٹری آپریشن کا بھی حوالہ دیا۔
رواں ہفتے پاکستانی طالبان کے سربراہ حکیم اللہ محسود بھی یہ عندیہ دے چکے ہیں کہ اگر حکومت سنجیدہ ہو تو وہ مذاکرات کے لیے تیار ہیں۔ ایک غیر ملک نشریاتی ادارے کو دیے گئے اس انٹرویو میں تحریک طالبان پاکستان کے رہنما حکیم اللہ محسود نے کہا ہے کہ وہ مذاکرات کے لیے سنجیدہ تھے لیکن حکومت پاکستان نے مذاکرات کے آغاز کے لیے کوئی عملی اقدامات نہیں کیے۔
طالبان رہنما کا یہ بھی کہنا تھا کہ اگر امریکی ڈرون حملے بند ہو جائیں تو جنگ بندی کے بارے میں بھی سوچا جا سکتا ہے۔ اس انٹرویو کے جواب میں پاکستانی وزیراعظم نے کہا ہے کہ حکومت طالبان کے ساتھ امن مذاکرات کے لیے مخلص ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی کا یہ بیان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے، جب پاکستان میں یہ قیاس آرائیاں ہو رہی تھیں کہ ملکی فوج مقامی طالبان کے ساتھ مذاکرات کی مخالف ہے۔