پاکستانی فیصلہ، افغانستان میں امن عمل کی کوششوں کے لیے دھچکا، ماہرین
30 نومبر 2011جرمن شہر بون میں 5 دسمبر کو افغانستان کے موضوع پر ایک بین الاقوامی کانفرنس منقعد ہو رہی ہے۔ پاکستانی حکام نے اپنی دو فوجی چوکیوں پر نیٹو کی جانب سے حملے کے ردعمل میں اس کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ ماہرین کے خیال میں اسلام آباد اپنے اس اقدام سے یہ اشارہ دینا چاہ رہا ہے کہ وہ مستقبل کے اُن امن مذاکرات سے پیچھے ہٹ رہا ہے، جنہیں امریکی وزیر خارجہ ہلیری کلنٹن کی بھرپور تائید و حمایت حاصل ہے۔
واشنگٹن کا بون کانفرنس کے بارے میں کہنا ہے کہ یہ خطے کے ممالک کے لیے ایک بہترین موقع ہے کہ وہ افغانستان سے امریکی اور نیٹو افواج کے انخلاء کے بعد پیدا ہونے والے خلاء کو پُر کرنے کے حوالے سے اقدامات پر غور کر سکیں۔ ایک امریکی تھنک ٹینک سے منسلک جنوبی ایشیائی امورکے ماہر شجاع نواز کا کہنا ہے کہ یہ کانفرنس پاکستان، ایران، چین، روس اور بھارت کو ایک ایسا پلیٹ فارم فراہم کر رہی ہے، جہاں یہ ممالک اس امر پر متفق ہو سکیں کہ وہ 2014ء کے بعد افغانستان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کریں گے اور امن کے قیام کی ضمانت دیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بون کانفرنس میں طے پانے والے فیصلے یقینی طور پر طالبان پر دباؤ ڈالیں گے کہ وہ حامد کرزئی کی حکومت کے ساتھ امن مذاکرات میں حصہ لیں۔
افغان جنگ کو دس سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا ہے اور حامد کرزئی کی امن قائم کرنے کی کوششوں کو اس وقت سب سے بڑا نقصان پہنچا، جب رواں سال ستمبر میں افغان امن کونسل کے سربراہ برہان الدین ربانی کو قتل کر دیا گیا۔ شجاع نواز کا مزید کہنا تھا کہ بون کانفرنس کے بائیکاٹ کے فیصلے سے ایک مرتبہ پھر امن کے قیام کی کوششوں کے متاثر ہونے کا خدشہ ہے۔
ہیریٹیج فاؤنڈیشن کی لیزا کرٹس کے بقول پاکستانی فیصلہ امریکی صدر باراک اوباما کی طویل المدتی افغان پالیسی پر اثر انداز ہو گا۔ واشنگٹن حکام کو امید ہے کہ بون کانفرنس افغانستان میں مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے میں کامیاب ثابت ہو گی۔ انہوں نےکہا کہ مصالحتی عمل کو آگے بڑھانے کے حوالے سے بون میں ہونے والی بات چیت کے بارے میں پہلے ہی سے خدشات موجود تھے لیکن بائیکاٹ کے فیصلے نے ان امکانات کو مزید معدوم کر دیا ہے۔
زیادہ تر ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان اور امریکہ کو ایک دوسرے کی ضرورت ہے اور یہ فیصلہ ان ممالک کے تعلقات کو نقصان پہنچائے گا۔ واشنٹگن کو افغانستان میں عسکری امداد پہنچانے کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے اور اسلام آباد حکام امریکہ سے فوجی اور معاشی امداد حاصل کرتے ہیں۔
رپورٹ: عدنان اسحاق
ادارت : امجد علی