1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی مرد ڈیٹنگ ایپس پرتعلق کے بغیر قربت کے متلاشی

24 دسمبر 2024

ڈیٹنگ ایپس نے دنیا بھر میں ڈیٹنگ کو پہلے سے کہیں زیادہ آسان بنا دیا ہے۔ تاہم، ان ایپس پر مردوں کا خواتین کے لیے رویہ کسی حد تک پرتشدد اور توہین آمیز ہے۔

https://p.dw.com/p/4oYSq
DW Urdu Blogerin Tehreem Azeem
تصویر: privat

ہماری ثقافت میں مرد اور عورت کے درمیان شادی ہی قابلِ قبول رومانوی تعلق سمجھا جاتا ہے۔ ڈیٹنگ ایپس پر اکثر مردوں نے اپنی پروفائل میں لکھا ہوتا ہے کہ وہ وہاں شادی کے لیے موجود نہیں ہیں یا وہ انٹی میسی ود آئوٹ کمٹمنٹ (کسی تعلق کے وعدے کے بغیر جنسی قربت) چاہتے ہیں۔ ان پروفائلز میں درج یہ الفاظ اس معاشرے کی مجموعی سوچ اور روایات سے بالکل متضاد ہیں۔ یہاں مردوں کے لیے شادی یا کسی عہد و پیمان کے بغیر جنسی قربت رکھنا ممکن ہے کیونکہ ہم انہیں کسی بھی ممکنہ نقصان یا بدنامی سے محفوظ رکھتے ہیں۔ لیکن ایک عورت کے لیے ایسا کرنا ہر لحاظ سے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہمارا معاشرہ عورت کو کردار، عزت اور اخلاقیات کے کڑے پیمانوں پر پرکھتا ہے۔ اسے کسی بھی غیر روایتی قدم کے سنگین نتائج بھگتنے پڑ سکتے ہیں۔

ڈیٹنگ ایپس سمیت مواصلات کے تمام ذرائع ہر علاقے کی ثقافت اور روایات کے مطابق استعمال کیے جاتے ہیں۔ پاکستان میں ڈیٹنگ کو معیوب سمجھا جاتا ہے۔ دو افراد کے درمیان رومانوی تعلقات لوگوں کے لیے گوسپ کا موضوع بن جاتے ہیں۔ کچھ علاقوں یا گھرانوں میں ایسے تعلقات پر لوگوں کو مختلف اقسام کے تشدد کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ بعض خاندانوں کے لیے ایسے تعلقات غیرت کا مسئلہ بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔

اس کے برعکس مغربی معاشروں میں ایسے تعلقات پر بات چیت یا گوسپ تو ہوتی ہے لیکن انہیں سماجی طور پر قبول بھی کیا جاتا ہے۔ وہاں افراد اپنے رومانوی ساتھیوں کو نہ صرف اپنی زندگی کا حصہ بناتے ہیں بلکہ انہیں اپنے گھر والوں سے ملوانے میں بھی کوئی جھجک محسوس نہیں کرتے۔ ہمارے معاشرے میں لوگ اپنے رومانوی تعلقات کو خفیہ رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اسی خفیہ پن میں اکثر مرد خواتین کو اور خواتین مردوں کو دھوکہ دیتے ہیں۔

بہت سی خواتین ڈیٹنگ ایپس پر کسی مرد کی پروفائل میں "انٹیمیسی ودآؤٹ کمٹمنٹ" جیسے جملے دیکھ کر فوری طور پر محتاط ہو جاتی ہیں۔ ہمارے معاشرے میں یہ عام تاثر پایا جاتا ہے کہ بغیر رشتے کے جسمانی تعلق کا خواہاں مرد عورت کی عزت نہیں کرتا بلکہ اسے محض ایک جسم سمجھتا ہے۔ ایسا مطالبہ کرنے والے مرد اکثر ہی اس تعلق کو سنجیدہ مراحل کی طرف لے کر نہیں جاتے۔

یہ مرد اپنی خواہش کو جدید دور کی اقدار کے مطابق قرار دیتے ہیں۔ اگر مجموعی طور پر پاکستانی معاشرتی رویوں کا جائزہ لیا جائے تو ان کی یہ خواہش عجیب محسوس ہوتی ہے۔ اس صدی میں بھی پاکستانی مردوں میں کنواری خاتون کا تصور بہت مقبول ہے۔ مذہبی بیانات میں بھی حوروں کی خصوصیات کو بیان کرتے ہوئے بار بار ان کے کنوارہ ہونے پر زور دیا جاتا ہے، جو کہیں نہ کہیں مردوں کی سوچ پر گہرا اثر ڈالتا ہے۔ اخبارات میں تواتر سے ایسی خبریں شائع ہوتی ہیں کہ شادی کے اگلے دن شوہر نے بیوی کو محض اس لیے طلاق دے دی کہ وہ اسے "باکرہ" نہیں لگی۔ متعلقہ یا بیوی کی دوسری شادی ناممکن ہو جاتی ہے۔ اگر کوئی ان سے شادی کرے تو اس کی نیت میں محبت سے زیادہ ترس شامل ہوتا ہے۔

ایسے معاشرے میں ڈیٹنگ کے نام پر بغیر کسی تعلق کے وعدے کے جنسی قربت کا مطالبہ سمجھ سے باہر ہے۔

ان مردوں کو سچ لکھنے کا کریڈٹ دیا جا سکتا ہے۔ تاہم، ایسا تعلق دو طرفہ رضامندی سے ہی قائم ہو سکتا ہے۔ "انٹیمیسی ودآؤٹ کمٹمنٹ" کا مطالبہ کرنے والے بہت سے مرد خواتین کے انکار پر انہیں قدامت پسند ہونے کا طعنہ دیتے ہیں۔ ان میں سے کئی مرد پہلے سے شادی شدہ ہوتے ہیں، جو غالباً اپنے روزمرہ کی زندگی سے بیزار ہو کر یا محض "منہ کا ذائقہ بدلنے" کے لیے ڈیٹنگ ایپس پر اس قسم کے تعلق کی تلاش میں ہوتے ہیں۔

یہی حال مسلمانوں کے لیے بنائی گئی ایپ "مز میچ" کا بھی ہے، جس کا بنیادی مقصد دو افراد کو شادی کے لیے متعارف کروانا ہے۔ وہاں بھی کئی شادی شدہ مرد دوسری شادی کا بہانہ بنا کر موجود ہوتے ہیں۔

دوسری شادی کے لطائف، مذہبی رہنماؤں کے بیانات اور حور کی خوبصورتی کے قصے اکثر مردوں کے ذہن کے ایک حصے کو ہر وقت خواتین کو غیر مناسب انداز سے دیکھنے اور ان سے رابطہ کرنے پر مجبور کرتے ہیں۔ بجائے اس کے کہ وہ ایک جگہ اپنے جذبات کو مرکوز رکھیں، اپنے تعلق کو مضبوط بنائیں اور رشتے میں اخلاص پیدا کریں، وہ ایک کے بعد دوسرے رشتے میں الجھتے رہتے ہیں۔ آخر میں جذباتی توڑ پھوڑ کا شکار ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ "عورت کو سمجھنا ناممکن ہے۔"

ڈیٹنگ ایک صحت مند رویہ ہو سکتا ہے لیکن اسے معاشرتی ثقافت اور روایات کے مطابق ہونا چاہیے۔ کوئی بھی ایسا عمل جو معاشرتی چلن کے خلاف ہو، کسی نہ کسی کے استحصال کا سبب بنتا ہے۔ رومانوی تعلقات میں زیادہ تر خواتین ہی نقصان اٹھاتی ہیں۔ مردوں کو ان کے ساتھ تعلقات قائم کرتے ہوئے معاشرتی روایات، خواتین کی مرضی، بنیادی اخلاقیات اور اپنی ذہنی و جذباتی صحت کا دھیان رکھنا چاہیے۔ 

 ڈیٹنگ ایپس نے مردوں اور خواتین کو برابری کی سطح پر ایک دوسرے سے رابطہ کرنے کی آزادی فراہم کی ہے لیکن اس آزادی کا ذمہ داری سے استعمال ہونا چاہیے۔ جذبات کے اظہار کا وہی طریقہ بہترین ہے جس سے نہ دوسرے کا نقصان ہو نہ اپنا نقصان ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔