پاکستانی نرسیں: صحت عامہ کے لازمی شعبے کا محروم طبقہ
8 مئی 2016جنوبی ایشیائی ملک پاکستان میں پیرا میڈیکل سٹاف میں شمار ہونے والی پیشہ ور نرسوں میں بہت بڑی اکثریت خواتین کی ہے۔ اس شعبے میں مرد نرسوں کی موجودگی اگرچہ بہت ہی کم ہے تاہم وہ کوئی انہونی بات نہیں ہے۔ پاکستان میں نرسنگ کے شعبے کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ ان میں ملک کی مسیحی مذہبی اقلیت سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد اس اقلیت کی مجموعی قومی آبادی کے تناسب سے بہت زیادہ ہے، خاص کر خواتین نرسوں کی۔ پاکستان کا شاید ہی کوئی ہسپتال ایسا ہو، جہاں مسیحی عقیدے سے تعلق رکھنے والی نرسیں کام نہ کر رہی ہوں۔
مہنگائی کے اس دور میں پاکستان میں ایک عام نرس کی اوسط ماہانہ تنخواہ پندرہ سے لے کر پچیس ہزار تک کے درمیان ہوتی ہے جبکہ سرکاری ہسپتالوں میں بہت سینیئر یا ہیڈ نرس کی تنخواہ پچاس ہزار تک بھی ہوتی ہے۔ نجی شعبے میں کام کرنے والی نرسوں کی تنخواہ سرکاری ہسپتالوں کی نرسوں کی تنخواہوں کے مقابلے میں واضح طور پر کم ہوتی ہے۔ اس کا سبب بے روزگاری کی اونچی شرح بھی ہے اور ہر شہر میں جگہ جگہ قائم نجی ہسپتالوں میں پیرا میڈیکل اسٹاف کے ساتھ کیا جانے والا مالی استحصال بھی ہے۔
صوبہ پنجاب کے شہر سیالکوٹ سے تعلق رکھنے والی نسیم اختر علوی گزشتہ پچیس برسوں سے نرسنگ کے پیشے سے منسلک ہیں۔ وہ اس وقت وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز یا پمز میں چیف نرسنگ سپرنٹنڈنٹ کی حیثیت سے فرائض انجام دے رہی ہیں۔ چھپن سالہ نسیم اختر علوی نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ ایک انٹرویو میں بتایا کہ وہ بیوہ ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی۔
عشروں پہلے پاکستان آرمی میں زیر تربیت رہنے والی نسیم اختر بعد میں نرسنگ کے پیشے سے منسلک ہو گئیں اور اس وقت وہ گریڈ سولہ کی سرکاری ملازم ہیں۔ انہوں نے کہا، ''میری بنیادی تنخواہ پچاس ہزار روپے ہے۔ الاؤنس وغیرہ شامل کے کے کچھ زیادہ بنتی ہے۔ لیکن ایک عام نرس کی ماہانہ تنخواہ کہیں کم ہوتی ہے۔ راتوں کو جاگنا آسان نہیں ہوتا۔ ہر نرس کو مہینے میں کم از کم سات نائٹ شفٹیں لازمی کرنا ہوتی ہیں۔ لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ کسی نرس کو رات کی ڈیوٹی کا کوئی نائٹ الاؤنس نہیں دیا جاتا۔‘‘
پمز کی چیف نرسنگ سپرنٹنڈنٹ نسیم اختر کے ساتھ کام کرنے والی نرس، سسٹر شہزانہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے نرسنگ کی پیشہ ورانہ تربیت لاہور میں حاصل کی اور انیس سو ستاسی سے وہ اسلام آباد میں ملازمت کر رہی ہیں۔ انہوں نے بتایا، ''میری سینیئر پوزیشن کی وجہ سے میری تنخواہ بھی پچاس ہزار کے قریب ہے۔‘‘
سسٹر شہزانہ نے کہا، ''جہاں تک حالات کار کا تعلق ہے تو کبھی کبھی ڈاکٹر حضرات تعاون نہیں کرتے۔ وہ نرسوں پر گرجنے لگتے ہیں۔ اس کا نقصان مریضوں کو ہوتا ہے کیونکہ ایسے حالات میں ہمارے لیے دلجمعی سے اپنا کام کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
اسلام آباد ہی کے ایک ہسپتال میں گزشتہ اٹھائیس برسوں سے فرائض انجام دینے والی اور اس وقت ہیڈ نرس کے عہدے پر فائز سسٹر شمیم شموئیل کا تعلق مسیحی اقلیت سے ہے۔ انہوں نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''مسائل سبھی پیشوں میں ہوتے ہیں۔ نرسنگ کے پیشے میں بھی ہیں۔ پہلے پاکستان میں اس پیشے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا تھا۔ اب شرح خواندگی بڑھ رہی ہے تو لوگوں کی سوچ بھی بدل رہی ہے۔ اب نرسنگ کے شعبے کو زیادہ عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔‘‘
جب ڈوئچے ویلے نے سترہویں گریڈ کی افسر شمیم شموئیل سے پوچھا نجی ہسپتالوں میں نرسنگ سٹاف کی صورت حال کیسی ہے، تو انہوں نے کہا، ''سرکاری ملازمتیں کرنے والے نرسنگ سٹاف کی نسبت پرائیویٹ ہسپتالوں میں نرسوں کی تنخواہیں واضح طور پر کم ہیں۔ سرکاری ملازمین کی صورت حال تو الاؤنسز اور وقت کے ساتھ سینیارٹی کی وجہ سے بہتر ہو جاتی ہے لیکن نجی شعبے میں ایسا نہیں ہوتا۔‘‘ ان کے مطابق نجی شعبے میں نرسوں کو کئی طرح کی استحصالی صورت حال کا سامنا زیادہ کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد کے ایک اور سرکاری ہسپتال پولی کلینک میں کام کرنے والی نرس ربیکا مسیح کو پیشہ ور نرس کے طور پر کام کرتے ہوئے چھ سال ہو گئے ہیں اور ان کی بنیادی ماہانہ تنخواہ بیس ہزار روپے ہے۔ انہوں نے اپنے تجربات بیان کرتے ہوئے ڈی دبلیو کو بتایا، ''بعض اوقات مریض بیماری کی حالت میں بہت بدتمیزی کر جاتے ہیں، گالیوں تک پر اتر آتے ہیں۔ ہم خاموشی سے اپنا کام کرتے رہتے ہیں۔ بعد میں یہی مریض صحت یاب ہونے کے بعد شکریہ ادا کرتے نہیں تھکتے۔ مجھے کئی بار اس کا ذاتی تجربہ ہوا ہے۔‘‘
ربیکا مسیح نے یہ شکایت بھی کی کہ مرد مریضوں کے وارڈ میں کئی بار نرسوں کو جنسی طور پر ہراساں بھی کیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ نرسنگ کی طالبات کو ہوسٹلوں میں بھی اکثر بہت مشکل حالات کا سامنا رہتا ہے۔
پاکستان میں کتنے افراد نرسنگ کے پیشے سے وابستہ ہیں؟ اس بارے میں پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز کی نرسنگ سٹاف ایسوسی ایشن کے صدر شریف خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''پاکستان نرسنگ کونسل کے مطابق ملک میں رجسٹرڈ نرسوں کی تعداد قریب اسی ہزار ہے۔ ان میں مرد بھی شامل ہیں لیکن بہت بڑی اکثریت خواتین کی ہے۔ صرف اسلام آباد کے پمز ہسپتال میں چھ سو سے زائد نرسیں کام کرتی ہیں۔ ان میں سے پانچ سو تیس خواتین ہیں اور چوہتر مرد۔‘‘
شریف خٹک کے بقول مردوں کا تناسب اتنا کم اس لیے ہے کہ پہلے مرد نرسوں کے لیے پانچ فیصد کوٹہ رکھا گیا تھا۔ پھر اسے دس فیصد کر دیا گیا۔ لیکن اس پیشے میں خواتین ابھی تک بہت بڑی اکثریت میں ہیں۔ انہوں نے یہ شکایت بھی کہ حکام نے نرسنگ سٹاف کے کئی مطالبات مدت سے تسلیم نہیں کیے، مثال کے طور پر ہائی رسک الاؤنس اور نائٹ الاؤنس کی ادائیگی کا مطالبہ۔
نرسنگ کے پیشے کے بارے میں یہ بات بہت سے پاکستانی نہیں جانتے کہ ہر سال بارہ مئی کو نرسوں کا بین الاقوامی دن منایا جاتا ہے۔ پاکستان میں اس سال یہ دن پہلے سکیورٹی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے اتوار آٹھ مئی کو منانے کا فیصلہ کیا گیا۔ پھر کہا گیا کہ یہ دن بارہ مئی کو ہی منایا جائے گا۔ بعد میں اسے پھر آٹھ مئی کر دیا گیا۔ اب حتمی طور پر اس سال کا نرسوں کا بین الاقوامی دن پوری دنیا کی طرح پاکستان میں بھی بارہ مئی بروز جمرات ہی منایا جائے گا۔
اس بارے میں شریف خٹک نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''دن کوئی بھی ہو، آٹھ مئی، بارہ مئی یا کوئی اور، نرسنگ کے شعبے کے عام سٹاف کی فلاح کے لیے حکومت کو مالی وسائل مہیا کرنے چاہیئں تاکہ ان ہزارہا نرسوں کے غریب خاندانوں کا گزارا تو ہو سکے، جو دن رات ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دیتی ہیں لیکن جنہیں آج بھی مجبوریوں اور محرومیوں کا سامنا رہتا ہے۔‘‘