میں نے بے اختیار مڑ کر ان کی طرف دیکھا اور دل سے دعا نکلی کہ یہ خیریت سے رہیں۔ اسی دوران میں سڑک پر ٹائروں کے چرچرانے کی آواز کے ساتھ ہی ایک دھماکہ سا ہوا اور میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ سامنے کھڑی ایک گاڑی سے جا ٹکرائے۔ ساتھ ہی ہٹو، بچو کا شور بلند ہونے لگا۔
خدایا۔۔! نہ جانے یہ دونوں بچے کس ماں کے لعل، کس بہن کا آسرا اور کس باپ کی امید ہیں۔ انہیں اپنی امان میں رکھنا، ایسی صورتحال میں اور کِیا بھی کیا جا سکتا تھا سوائے اس دعا اور امید کے، کہ انہیں کوئی گہری چوٹ نہ لگی ہو، ان کی زندگی سلامت رہے۔
بظاہر تو یہ روز مرہ زندگی میں پیش آنے والا ایک عام سا معاملہ ہے مگر میرے دل و دماغ پر اس کا اثر بہت دنوں تک رہا۔ خود ہی سوچتی رہی کہ کیا ان بچوں کو سمجھانے والا کوئی نہیں تھا کہ ایک بے منفعت ایڈونچر کے لیے اپنی قیمتی جان کو یوں داؤ پر نہیں لگانا؟
میرا گھر شہر کے مرکز کی نسبتاً متمول آبادی میں ہے مگر پورے علاقے میں قریب قریب کوئی کھیل کا میدان، پارک یا ایسی کھلی جگہ نہیں، جہاں تفریح کا کوئی سامان ہو۔ پاس پڑوس کے وہ بچے، جنہیں میں نے قدم قدم چلنا سیکھتے دیکھا اب ماشاء اللہ جوان ہو چکے ہیں۔ شام کو دفتر سے واپسی پر اکثر دیکھتی ہوں کہ ان میں سے بیشتر داڑھی مونچھیں بڑھائے، گریبان کھولے، اینگری ینگ مین کی سی شکل بنائے گلی کی نکڑ پر واقع سنوکر کلب یا گلیوں، بازاروں میں کھڑے، ہر آتے جاتے کو گھور رہے ہیں یا آوازیں کس رہے ہیں۔
ایسے میں جب میں اپنے ہی سامنے بڑھے ہونے والے بچوں کی چبھتی نگاہوں کا سامنا کرتی ہوں تو غصے سے زیادہ دکھ کی سی کیفیت محسوس ہوتی ہے ۔ بظاہر اچھے گھروں کے ان بچوں کی چال ڈھال، وضع قطع اور بول چال میں کہیں بھی دکھائی نہیں دیتا کہ کہیں ان کی تربیت پر کسی نے کوئی توجہ دی ہو گی۔
کبھی سوچتی ہوں کہ ان بچوں کا بھی قصور تو نہیں۔ ہماری بائیس کروڑ سے متجاوز آبادی کا ایک غالب حصہ، سولہ سے پچیس برس کی عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ لیکن سرکارِ بلند اقبال کے پاس اس افرادی قوت کے لیے ایسا کوئی منصوبہ ہے کہ آنے والے دنوں میں یہ کار آمد شہری بن سکیں ، ان کا معاشی مستقبل کیا ہوگا؟
تعلیم، اس طرف سے تو بے فکری سمجھیے کہ اس کا بیڑا اب مکمل طور پر پرائیویٹ سیکٹر نے اٹھا رکھا ہے۔ جو بھاری فیس اور اخراجات بھر سکے وہ آ کر تعلیم کے نام پر انگریزی زبان سیکھ لے۔
تربیت، زیادہ عرصہ نہیں گزرا، اس نام کی بھی کوئی شے ہوا کرتی تھی مگر اب تقریباً ناپید ہے۔ جہاں تعلیمی اداروں میں یہ ترجیح نہیں رہی وہیں گھروں میں بھی اس کے متعلق کسی کو پروا نہیں۔
اور تفریح، اس کی ذمہ داری الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کے سپرد ہے۔ اس پر جیسا دیکھیں گے، ویسا ہی بننے کی کوشش کریں گے۔ جو زیادہ لائیک اور کامنٹ سمیٹ رہا ہے، وہی مقبول و معتبر اور اسی کی تقلید اب لازم ٹھہری۔
اس دور کے ہیرو بھی گینگسٹرز اور ٹک ٹاک سٹارز ہیں۔
سچائی، جھوٹ، دھوکہ، بد زبانی سے اجتناب ہم نے سکھایا ہی کب ؟ اپنے تئیں نوجوانوں کے مستقبل کی فکر میں گھلتے لبرل ہوں یا مذہبی اور سیاسی طبقات، سبھی اپنے مؤقف کے دفاع میں، جب ہر اخلاقی سطح سے گرنے کو تیار ہوں تو پھر کھوکھلے دعوؤں سے کیا ہو گا؟
ہمارے معاشرے میں نوجوان دو طبقوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ایک وہ جو امیر اور بارسوخ والدین کی اولادیں ہیں۔ یہ سونے کا چمچ منہ میں لیے آسودہ گھرانوں میں پیدا ہوئے اور اپنی موج مستی میں مست ہیں۔ اوّل تو انہیں مستقبل کی فکر ہی نہیں لیکن ہو بھی تو ان کے والدین مواقع خرید کر ان کے قدموں میں ڈھیر کرنے کی طاقت بھی رکھتے ہیں اور وسائل بھی۔
دُوسرا طبقہ متوسط اور غریب نوجوانوں کا ہے، جن کے لیے کہیں کوئی جائے پناہ نہیں ہے۔ روز افزوں بڑھتی معاشی اور سماجی تقسیم کے ستائے من چاہی خواہشات کے پورا نہ ہونے پر پہلے برہم پھر سیخ پا اور اس کے بعد شدید اضطرابی کیفیت کا شکار دکھائی دیتے ہیں اور یہیں سے وہ سلسلہ چل نکلتا ہے، جہاں اقدار و روایات سے ٹکراؤ کی کیفیت اپنی انتہا پر دکھائی دیتی ہے۔
اخبارات، الیکٹرانک اور سوشل میڈیا پر ایسی خبریں تواتر سے پڑھنے کو مل رہی ہیں، جن کی وجہ سے معاشرے کا اخلاقی توازن بہت زیادہ بگڑتا نظر آ رہا ہے۔ جب بھی ہراسانی کے واقعات رونما ہوں، پڑھے لکھے ذہنوں میں یہ سوالات ضرور جنم لیتے ہیں کہ آخر ہم کس معاشرے کے شہری ہیں؟ نوجوانوں کی تربیت کن ہاتھوں میں ہوئی ہے؟ کیا والدین آنکھیں بند کیے ہوئے ہیں اور تعلیم سے ہم انہیں کیا سکھا رہے ہیں؟ لیکن شاید کسی کے پاس ان سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کی فرصت نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ''تیرہ سال سے بیس‘‘سال کی ابتدائی عمر کے دوران میں نو عمر بچوں خصوصاً لڑکوں کو شناخت کے علاوہ کردار کے انتخاب کی الجھن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس مرحلے میں نوجوان زندگی میں سماجی اقدار کو قائم رکھنے کی جدوجہد، سیاسی امور میں دل چسپی، اپنی پسند کا کَریئر چننے کی کشمکش، محبت اور شادی جیسے مراحل میں اپنے انتخاب اور اپنی شناخت بنانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔
ان حالات میں وہی بچے کام یاب ہو کر آگے بڑھتے ہیں، جنہیں ’’پانچ سال سے بارہ سال‘‘ کی عمر میں بہترین فیصلہ کن تربیت حاصل رہی ہو۔ ماہرین نفسیات کی رائے میں تربیت کے معاملات میں بچپن سے ہی احتیاطی تدابیر اختیار کی جانی چاہییں۔ صحیح اور غلط کا فیصلے کرنے کے لیے روز مرہ کی زندگی میں حسن اخلاق کے ساتھ اپنی زندگی میں کچھ حدود و قیود کا قائم رکھنا بھی ضروری ہے۔ بچوں کو ان سے آگاہ کرنا یوں لازم ہے کہ انہیں آزادی اور مادر پدر آزادی کا فرق معلوم ہو سکے۔
لیکن مجھے اپنے اردگرد کے ماحول میں ایسا کچھ دکھائی نہیں دیتا۔ موجودہ معاشرتی تناظر میں ان حدود و قیود کا تعین کب، کہاں اور کس طرح ہو گا، اس بارے میں راوی مکمل چین لکھتا ہے۔
اپنی شناخت کی تلاش اور مستقبل کی غیر یقینی سے مایوس یہ کروڑوں بچے کس سمت میں جا رہے ہیں؟ اس بارے سوچیے کہ بہت تاخیر ہو چکی۔ ورنہ سڑکوں پر ون ویلنگ کر کے اپنی زندگیوں کو داؤ پر لگاتے، گلیوں، محلوں اور بازاروں میں بے مقصد گھومتے یہ نوجوان وقت کے بہاؤ کے ساتھ بہتے ہوئے ہم سے کہیں بہت دور نکل جائیں گے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔