پاکستانی وزیر اعظم کے گھر کے باہر سیلاب سے متاثرہ شخص کی خودسوزی
21 ستمبر 2010محمد اکرم نے جب خود کو آگ لگائی، تو وہاں متعدد لوگ موجود تھے۔ وہ حالیہ سیلاب کے باعث بے گھر ہو چکا تھا۔ آگ لگنے کے نتیجے میں اس کا جسم نوے فیصد جُھلس گیا۔ اسے ہسپتال میں انتہائی نازک حالت میں پہنچایا گیا، تاہم اس کی جان نہ بچائی جا سکی۔
پولیس نے اس واقع کی تصدیق کر دی ہے۔
خیال رہے کہ ماہرینِ طب کے مطابق انسانی جسم ساٹھ فیصد سے زائد جھلس جائے تو متاثرہ شخص کے بچنے کا امکان انتہائی کم ہو جاتا ہے۔
خود سوزی کرنے والے محمد اکرم کا تعلق ملتان سے ساٹھ کلو میٹر کی دوری پر جنوب مغرب میں واقع جام پور کے قصبے سے ہے، جو سیلاب سے شدید متاثرہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے۔ محمد اکرم سیلاب سے پہلے ہی بیروزگار تھا اور وہ روزگار کی تلاش میں مارا مارا پھرتا تھا۔ تاہم وہ کوئی مناسب ذریعہ معاش تلاش کرنے میں ناکام رہا۔ اس کے بھائی محمد آصف نے اس کی معاشی پریشانی کی تفصیلات ذرائع ابلاغ کو بتائیں۔ خود سوزی کرنے والے اکرم کے بھائی کے مطابق اس کا کچاگھر سیلابی پانی کے ریلے میں بہہ گیا تھا۔آصف کے مطابق اس کے مرحوم بھائی نے نوکری کے لئے وزیر اعظم کے دفترکو خط کے ذریعے اپیل بھی روانہ کی تھی، لیکن اسے کوئی جواب نہ ملا۔
وزیر اعظم نے محمد اکرم کے والد کو واقع کے بعد تعزیت کا فون کیا اور پانچ لاکھ روپے کی امداد کا یقین دلایا۔ وزیر اعظم کے دفتر سے جاری کئے گئے بیان میں اس افسوسناک واقعے پر شدید رنج کا اظہار کیا گیا۔
پاکستان میں حالیہ سیلاب کے باعث لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ سماجی ماہرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ اس طرح کے مزید واقعات آئندہ دِنوں میں رُونما ہو سکتے ہیں، کیونکہ امداد ابھی تک نچلی سطح تک نہیں پہنچ پا رہی اور متاثرین کا غم و غصہ بڑھتا جا رہا ہے۔ امدادکی تقسیم کا عمل بھی سست بتایا جاتا ہے اور اس پر غیر سرکاری تنظیموں سمیت سیاسی جماعتیں بھی تحفظات رکھتی ہیں۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: ندیم گِل