پاکستانی کھیل: کیسی بلندی کیسی پستی
13 فروری 2012ایتھلیٹکس کو تمام کھیلوں کی ماں کہا جاتا ہے۔ انیس سو سینتالیس میں پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد جلد ہی برگیڈیئر روڈھم کے تربیت یافتہ پاکستانی ایتھلیٹکس کا دنیا میں شہرہ ہوگیا تھا۔ عبدالخالق نے 1954ء اورانیس سو اٹھاون کے ایشین گیمز میں سو میٹر کی دوڑ میں سب کو پیچھے چھوڑ کر تہلکہ مچا دیا۔ خالق کے ہی ہم عصر اور 1962ء کے کامن ویلتھ چیمپئن غلام رازق نے بھی ایشین گیمز میں دو طلائی تمغے جیتے۔ دونوں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا بلکہ عبدالخالق نے انیس سو چھپن کے میلبورن اولمپکس میں سو اور دو سو میٹر کے سیمی فائنل میں بھی پہنچنے کا اعزاز حاصل کیا تو رازق نے میلبورن کے بعد روم اولمپکس کے بھی سیمی فائنل تک رسائی ممکن بنائی۔
خالق اور رازق کے بعد لمبی ریس کے دھاوک مبارک شاہ تین ایشین گیمز گولڈ میڈل جیتنے والے واحد پاکستانی کھلاڑی بنے۔ مگر پھر چراغوں میں روشنی نہ رہی اور انیس نوے میں غلام عباس کے ایشین گیمز گولڈ میڈل جیتنے کے بعد سے ٹریک اینڈ فیلڈ میں کوئی پاکستانی ایتھلیٹ تاحال میدان نہیں مار سکا۔
اس بارے میں پنجاب اولمپک ایسو ایشن کے سیکریٹری ادریس حیدر خواجہ کہتے ہیں، ’’کھیلوں میں پہلے نیا ٹیلنٹ اسکول اور کالج سے آیا کرتا تھا مگر گز شتہ بیس برسوں سے اسکولوں اور کالجوں میں کھیلوں کی طرف توجہ نہیں دی گئی بلکہ تعلیمی اداروں میں کھیلوں کے میدانوں پر عمارتیں تعمیر کرکے کمرشل کلاسز شروع کر دی گئیں۔ رہی سہی کسر سکیورٹی کے خراب حالات نے پوری کردی، جس کی وجہ سے نہ صرف غیر ملکی ٹیمیں پاکستان نہیں آرہیں بلکہ نائن الیون کے بعد قومی کھیل بھی صرف دو بار ہی منعقد ہو سکے ہیں۔‘‘
دو ہزار بارہ لندن اولمپکس کا سال ہے مگر پاکستان میں کئی اولمپکس کھیل ایسے بھی ہیں، جن کا اب کوئی پرسان حال نہیں۔ بیڈمنٹن میں پاکستان نے شمشاد علی اور سید نقی محسن کے علاوہ طارق ودود جیسے نامور کھلاڑی پیدا کیے اور پھر انیس چوہتر کی تہران ایشین گیمز کے سیمی فائنل میں بھی جگہ بنائی مگر ستم ظریفی یہ ہے کہ گز شتہ چند برسوں سے یہ کھیل اب صرف عدالتوں میں ہی کھیلا جا رہا ہے۔ اسی وجہ سے عالمی بیڈمنٹن فیڈریشن پاکستان کی رکنیت معطل کر چکی ہے جبکہ پاکستان باسکٹ بال اورسائیکلنگ فیڈریشنز بھی عہدوں کی ایسی ہی چھینا جھپٹی کی وجہ سے غیر فعال ہو چکی ہیں۔
انیس سو باسٹھ کی جکارتہ ایشین گیمز میں پاکستان والی بال ٹیم نے کانسی کا تمغہ جیتا تھا مگرحالیہ برسوں میں اس سستے عوامی کھیل میں پاکستان کی مسلسل تنزلی اسے عالمی رینکنگ میں تینتالیسویں نمبر پر لےآئی ہے۔ اسکواش میں جہانگیر خان اور جان شیرخان نے پاکستان کو چودہ بار عالمی چیمپئن بنوایا، تاہم اب اسکواش کورٹ میں بھارت بھی پاکستان کو پیچھے چھوڑ چکا ہے اور کوئی پاکستانی کھلاڑی دنیا کے سرکردہ بیس کھلاڑیوں کی صف میں شامل نہیں۔ ادریس حیدر خواجہ پیسے کی کمی کو اس زوال کا سبب قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ پاکستان میں انفراسٹرکچر کا فقدان ہے۔
ادریس حیدر کے بقول کسی حکومت نے کھیلوں کو اپنی ترجیحات میں شامل نہیں کیا۔ اسپورٹس فیڈریشنوں اورایسو سی ایشنوں کو سالانہ بہت معمولی گرانٹ ملتی ہے، جس سے ایونٹ کرانا تو درکنار دفتر تک نہیں چلایا جا سکتا۔ حیدر کے مطابق اچھے کھلاڑی پیدا کرنے کے لیے اچھے کوچز کی خدمات حاصل کرنا اور ایونٹس کا انعقاد ضروری ہے مگر یہ پیسے کا کھیل ہے۔ ہمسایہ ملک بھارت میں اسپورٹس پر اربوں روپیہ خرچ ہو رہا ہے جبکہ ہمارے پورے ملک میں انیس اٹھاون میں ایک سائیکلنگ ویلوڈ روم بنایا گیا تھا، جو برسوں سے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور سائیکلنگ کے لیے خطرناک ہو چکا ہے۔ حکام کی بے حسی کا یہ عالم ہے کہ لاہور میں پاکستان سپورٹس بورڈ کے جمنازیم کی تعمیر ایک تنازع کی وجہ سے سالہا سال سے کھٹائی میں پڑی ہے حالانکہ اس پر کروڑوں روپے کی لاگت آچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ نہر پر نہا کر کوئی بھی ملک کے لیے گولڈ میڈل نہیں جیت سکتا اس کےلیے کھلاڑیوں کو سہولتیں فراہم کرنا ہوں گی۔
پاکستان میں کھیلوں کا سالانہ بجٹ پچیس کروڑ ہے اور دلچسپ امر یہ ہے کہ، جن اسپوڑٹس فیڈریشنز کے پاس پیسے کی فروانی ہے ان کی کارکردگی بھی انتہائی مایوس کن ہے۔ صوبائی اور وفاقی حکومتوں کی جانب سے قومی کھیل ہاکی کی سرپرستی کے لیے گز شتہ تین برسوں میں پچاس کروڑ سے زائد رقم خرچ کی جا چکی ہے مگر نتیجہ وہی ہے یعنی ڈھاک کے تین پات۔ تین بار کی اولمپک اور چار بار کی ورلڈ چیمپئن پاکستان ہاکی ٹیم نے بیجنگ اولمپکس دو ہزار آٹھ میں اٹھویں پوزیشن حاصل کی تھی اور آج بھی اس کی عالمی رینکنگ آٹھ ہی ہے۔
ہاکی کی طرح پاکستان فٹبال فیڈریشن کے پاس بھی پیسے کی کمی نہیں۔ کھیل کی عالمی تنظیم فیفا اور ایشیائی فٹبال کنفیڈریشن ﴿اے ایف سی﴾ سے پاکستان کو سالانہ چار لاکھ ڈالرز سے زائد گرانٹ ملتی ہے مگر پاکستان کا فٹبال پھر بھی دن بدن پاتال کی حدوں کو چھورہا ہے۔ حال ہی میں ساف کپ میں ناکامی کے بعد پاکستان فٹبال ٹیم کی ورلڈ رینکنگ ایک سو اناسی ہو چکی ہے، جو افغانستان اور نیپال جیسے ملکوں سے بھی بدتر ہے۔
پاکستان میں کھیلوں کی گز شتہ چار عشروں سے کوریج کرنے والے سرکردہ صحافی شاہد شیخ کہتے ہیں کہ معاملہ پیسے کی کمی کا نہیں بلکہ بدنیتی کا ہے۔ شاہد شیخ کے بقول اصل مسئلہ کمٹمنٹ کا فقدان ہے، ’’ہمارے کھیلوں کے عہدیدار بد قسمتی سے صرف اولمپکس کو ایک تفریحی غیرملکی دورے سے زیادہ اہمیت دینے کو تیار نہیں۔ ان کی توانانیاں بھی میڈلز لینے کی بجائے محض دوروں کے حصول پر ہی صرف ہو رہی ہیں۔ اولمپکس دو ہزار آٹھ کی تیاری کے نام پر پاکستان اسپورٹس ٹرسٹ کا کروڑوں روپیہ ضائع کیا گیا تھا۔‘‘
دوسری جانب اس گھٹا ٹوپ اندھیرے میں کئی کھلاڑی اوراسپورٹس فیڈرشینز ایسی بھی ہیں، جو حکومتی اعانت نہ ہونے کے باوجود کامیابیاں سمیٹ رہے ہیں ۔ اعصام الحق، جن کی وجہ سے دو ہزار پانچ میں پاکستان کو پہلی مرتبہ ڈیوس کپ ورلڈ گروپ پلے آف میں پہنچنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا اب بھی اپنی ذاتی کاوش سے ٹینس کورٹ پر ملک کے نام کی لاج رکھے ہوئے ہیں۔ اعصام ڈبلز مقابلوں میں عالمی نمبر نو ہیں تاہم رواں برس لندن اولمپکس میں اپنی شرکت یقینی بنانے کے لیے اگلے پانچ ماہ تک اعصام الحق کا ٹاپ ٹین میں رہنا ضروری ہوگا۔
اس طرح کراٹے میں سعدی عباس نے کچھ عرصہ قبل ایشین چیمپئن شپ جیت کر پاکستان کے پرچم کو سر بلند رکھنے کی اپنی سی کوشش کی ہے جبکہ بیس بال میں بھی نہایت کم عرصے میں وسائل کی کمی کے باوجود پاکستان نے حیران کن کارکردگی کا مظاہرہ کرکے ایشیا کپ جیتنے کا اعزاز حاصل کیا تھا۔
دوسری جانب پاکستان میں کھیلوں کی سب سے بڑی تنظیم پاکستان اولمپک ایسو سی ایشن کا تیسری بار صدر منتخب ہونے کے بعد ریٹائرڈ جنرل سید عارف حسن نے پاکستانی کھیلوں کی حالت زار سنوارنے کا وعدہ کیا ہے۔
مگر ایک سابق فوجی جرنل کا یہ نیا وعدہ نہیں ہے کیونکہ مسٹرعارف حسن گز شتہ آٹھ سال سے اس منصب پر رہ کر ٹھیک وہی لالی پاپ دیتے رہے ہیں، جو ان کے پیش رو سید واجد علی نے دیتے ہوئے چبھیس سال گزار دیے تھے۔
رپورٹ: طارق سعید، لاہور
ادارت: امتیاز احمد