1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان:یو ٹیوب پر پابندی کو دو سال ہو گئے

عدنان اسحاق 17 ستمبر 2014

انٹرنیٹ پر ویڈیو شیئرنگ کی ویب سائیٹ یو ٹیوب پر پاکستان میں پابندی کو دو سال پورے ہو گئے ہیں۔ ایک متنازعہ فلم تک لوگوں کی رسائی روکنے کے لیے پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں یو ٹیوب کو بند کر دیا گیا تھا۔

https://p.dw.com/p/1DDwQ
تصویر: picture-alliance/dpa

پاکستان میں یو ٹیوب پر پابندی کے دو سال پورے ہونے پر بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ متنازعہ مواد تک عوامی رسائی روک کر یو ٹیوب کو طالب علموں، محققوں اور عام لوگوں کے استعمال کے لیے کھول دینا چاہیے۔ تاہم بیشتر لوگوں کی رائے یہ بھی ہے کہ حکومت اس مسئلے کے حل کے لیے سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی ہے۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ چند ماہ پہلے پاکستان کی قومی اسمبلی پیپلز پارٹی کی ایک رکن اسمبلی شازیہ مری کی طرف سے یو ٹیوب کھولنے کے حوالے سے پیش کی جانے والی ایک قرار داد منظور کر چکی ہے۔ اس قرارداد پر وزیر مملکت سائرہ افضل تارڑ نے ایوان کو بتایا تھا کہ حکومت یو ٹیوب پر پابندی کے حق میں نہیں لیکن یہ معاملہ اب عدالت میں ہے۔ ان کے بقول تمام سیاسی جماعتوں کو مل بیٹھ کر اس مسئلے کا کوئی حل تلاش کرنا چاہیے۔

پاکستان میں اس مسئلے سے آگاہی رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ گوگل کمپنی نے اس کے حل کے لیے پاکستانی حکومت کو تجاویز دی ہیں لیکن اس حوالے سے پاکستانی حکومت کو نئی قانون سازی کرنا ہوگی۔

پاکستان کے ایک معروف قانون دان محمد اظہر صدیق نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ حکومت یو ٹیوب پرسے پابندی ختم کرنے کے حق میں نہیں ہے کیونکہ اقتدار میں بیٹھے ہوئے لوگ نہیں چاہتے کہ ان کی خامیاں سوشل میڈیا کی زینت بنیں۔ اس کا بڑا ثبوت آج کل انٹرنیٹ پر چلنے والی رحمان ملک کی جہاز والی ویڈیو ہے۔ ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’’آزادی اظہار کی اہمیت اپنی جگہ لیکن دوسروں کی آزادی وہاں ختم ہو جاتی ہے جہاں میری ناک شروع ہوتی ہے۔‘‘ ان کے بقول خلق خدا کی دل آزاری کا باعث بننے والے مواد کو یو ٹیوب پر اپ لوڈ نہیں کیا جانا چاہیے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کا اعتراض یو ٹیوب پر نہیں بلکہ اس پر اپ لوڈ کیے جانے والے متنازعہ مواد پر ہے۔

گورنمنٹ کالج ٹاون شپ لاہور کے پرنسپل ڈاکٹر اعجاز بٹ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ یو ٹیوب بصری معلومات کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ ان کے بقول حکومت کو متنازعہ مواد تک لوگوں کی رسائی روک کر پاکستان میں طالبعلموں اور محققوں کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے یو ٹیوب کو کھول دینا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ یہ بات درست ہے کہ کئی لوگ متبادل طریقوں سے پاکستان میں یوٹیوب تک رسائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔

صحافی اور تجزیہ نگار زاہدہ حنا کا بھی موقف یہی ہے کہ متنازعہ مواد کو ہٹا کر یو ٹیوب سے پابندی اٹھا لینی چاہیے۔ تاکہ اطلاعات کی فراہمی کے اس جدید ذریعے سے ہمارے لوگ محروم نہ رہیں۔

سول سوسائٹی کی نمائندہ شازیہ شاہین بھی یو ٹیوب کو اطلاعات کی فراہمی کے حوالے سے اہم خیال کرتی ہیں لیکن ان کا کہنا تھا کہ یو ٹیوب کے مسئلے کو حل کرنا حکومتی ترجیحات میں کہیں دکھائی نہیں دے رہا۔ ان کے بقول عالمی برادری کو متنازعہ مواد کے یو ٹیوب پر آنے کو روکنے کے لیے اصول وضوابط وضع کرنے چاہیئں۔

شاہد نامی ایک طالب علم نے متنازعہ مواد کی یو ٹیوب پر اپ لوڈنگ پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ حکومت یو ٹیوب کی تعلیمی افادیت کو سامنے رکھتے ہوئے اس مسئلےکا کوئی مناسب حل نکالے۔