پختون اب جنگ سے تھک چکے ہیں، منظور پشتین
11 اپریل 2018شمالی پاکستان اور افغانستان کی زیادہ تر آبادی پختونوں پر مشتمل ہے۔ 1980ء سے پختونوں کی تین نسلیں خطے میں جاری تنازعات کی بھاری قیمت ادا کر چکی ہیں۔ پہلے سرد جنگ کے دوران سابقہ سوویت یونین اور امریکا کے مابین کشیدگی نے اس خطے کو علاقہ جنگ میں بدل دیا اور پھر مغربی ممالک کی انتہا پسندی کے خلاف جنگ نے پختونوں کی ایک بڑی تعداد کو بے گھر، مفلس اور بے یارو مددگار بنا ڈالا۔
ڈی ڈبلیو: پی ٹی ایم کے کیا مقاصد ہیں اور وہ دیگر پختون جماعتوں سے کس طرح مختلف ہے؟
منظور پشتین : ہمارا مقصد بالکل واضح ہے۔ ہم تمام لاپتہ افراد کی رہائی چاہتے ہیں۔ اگر انہوں نے کوئی جرم کیا ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔ پختونوں کے ماورائے عدالت قتل بند کیے جائیں۔ ساتھ ہی ہم فاٹا میں بارودی سرنگوں کی صفائی کا مطالبہ بھی کر رہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ سلامتی کے ادارے تلاشی کے بہانے پختون خاندانوں کو تنگ اور شمالی علاقہ جات میں قائم فوجی چوکیوں پر ان کی تذلیل کرنا بند کریں۔ میرے خیال میں دوسری پختون جماعتیں ان امور پر زور نہیں دیتیں۔
ڈی ڈبلیو: کیا پاکستانی حکام کی جانب سے آپ کے مطالبات پر کوئی رد عمل سامنے آیا ہے؟
منظور پشتین : انہوں نے کہا ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی رہائی اور ماورائے عدالت قتل کے علاوہ تمام مطالبات تسلیم کرنے پر تیار ہیں۔
ڈی ڈبلیو: آپ نے طالبان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان اور سابق صدر پرویز مشرف پر مقدمہ چلانے کی بات کی ہے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟
منظور پشتین : میرے خیال میں پرویز مشرف اور احسان اللہ احسان دونوں بے گناہوں کی ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ احسان نے یہ سب کچھ ایک دہشت گرد تنظیم کے ذریعے کیا جبکہ مشرف نے نسل کشی کے لیے ایک غیر آئینی فوجی آپریشن کو جواز بنایا۔ میں صرف انسانی حقوق کی بات کر رہا ہوں لیکن کچھ لوگ مجھے غدار اور دہشت گرد کہہ رہے ہیں جبکہ احسان اللہ احسان سب سے بڑا دہشت گرد اور مشرف اصل غدار ہے۔
ڈی ڈبلیو: جبری گمشدگی اور ماورائے عدالت قتل صرف فاٹا کا مسئلہ نہیں۔ کیا آپ ملک کے دیگر علاقوں کے متاثرہ خاندانوں کو ساتھ ملانے کا منصوبہ بنا رہے ہیں؟
منظور پشتین: تمام متاثرہ افراد کے ساتھ کام کر کے مجھے خوشی ہو گی۔ یہ ہمارا قومی مسئلہ ہے اور ہمیں مل کر کام کرنا ہو گا۔
پی ٹی ایم کا میڈیا بلیک آؤٹ ، کیا کسی کا اشارہ تھا؟
ڈی ڈبلیو: آپ پختونوں کی تکالیف کی ذمہ داری فوج پر عائد کر رہے ہیں۔ آپ کے پاس اس حوالے سے ثبوت ہیں؟
منظور پشتین: فوج کی اعلی کمان کئی مرتبہ یہ کہہ چکی ہے کہ انہوں نے مجاہدین کو بنایا تھا اور سابقہ سوویت یونین کے خلاف لڑنے کے لیے پختونوں کا استعمال کیا تھا۔ اس کے بعد سے فوج نے فاٹا کے علاقوں کو دہشت گردی کے فروغ اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کیا ہے۔
ڈی ڈبلیو: کیا یہ تحریک پاکستانی اور افغان پشتونوں کو جنگ کے خلاف متحد کر سکتی ہے؟
منظور پشتین: ہماری تحریک پشتونوں کے حقوق کے دفاع کے لیے ہے۔ ہمارے مطالبے پاکستان کے آئین کے مطابق ہیں۔ اگر پاکستان میں طالبان کے محفوظ ٹھکانے ختم کر دیے جاتے ہیں، خاص طور پر فاٹا میں اور ریاست پاکستان اچھے اور برے طالبان کی اپنی حکمت عملی بدل دیتی ہے تو افغانستان کے پشتونوں کو ایک ایسا اشارہ ملے گا، جس کے بعد وہ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔
ڈی ڈبلیو: کیا پی ٹی ایم کو پاکستانی حکام سے کوئی خطرہ ہے؟
منظور پشتین: سلامتی کے شعبے سے منسلک کچھ اہلکاروں نے کہا ہے کہ اگر میں نے اپنی سرگرمیاں نہیں روکیں تو وہ مجھے غدار قرار دے دیں گے۔ یہ لوگ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ میں افغان اور بھارتی خفیہ اداروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہوں۔ ان لوگوں نے مجھے دھمکی دی ہے کہ اگر میں نے ریاست مخالف سرگرمیاں بند نہ کیں تو مجھے گرفتار کر لیا جائے گا۔ میں صرف پشتونوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی جنگ لڑ رہا ہوں۔
ڈی ڈبلیو: کیا آپ کی اس تناظر میں امریکا یا مغربی ممالک سے بھی کوئی مطالبہ ہے؟
منظور پشتین: میں امریکا اور دیگر مغربی سے یہی کہوں گا کہ افغانستان میں خونی جنگ بند کی جائے۔ جنگ کوئی حل نہیں ہے اور نہ ہی اس سے امن قائم کیا جا سکتا ہے۔
ڈی ڈبلیو: اگلے مہینوں کے آپ کے کیا منصوبے ہیں؟ 2018ء کے انتخابات میں حصہ لینے کا کوئی ارادہ ہے؟
منظور پشتین: ہم سمجھوتہ نہیں کریں گے اور اپنے مطالبات پر ڈٹے رہیں گے۔ جب تک اپنا ہدف حاصل نہیں کر لیتے اس وقت تک ہم اپنی پر امن تحریک جاری رکھیں گے۔ میں سیاستدان نہیں ہوں اس لیے انتخابات میں حصہ لینا میرے بس کی بات نہیں۔ جیسے ہی میرے مطالبات پورے ہو گئے میں خاموشی سے گھر میں بیٹھ جاؤں گا۔ ہمیں صرف امن مقصود ہے۔
ڈی ڈبلیو کے لیے یہ انٹرویو شاہ میر بلوچ نے ٹیلیفون پر کیا ہے