1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پراگ اسپرنگ، جسے سابقہ سوویت یونین کے ٹینکوں نے کچل دیا تھا

عابد حسین این ولووبائی
5 جنوری 2018

پانچ جنوری سن 1968 کو اُس وقت کے ملک چیکوسلوواکیہ میں ایک نئے لیڈر نے لبرل پالیسی متعارف کرانے کا فیصلہ کیا۔ یہ لبرل پالیسی اس وقت سوویت یونین کو پسند نہ آئی اور تقریباً چھ ماہ بعد اس پر کمیونسٹ ملکوں کے ٹینک چڑھ دوڑے۔

https://p.dw.com/p/2qNZN
Prager Frühling - Einmarsch
تصویر: picture-alliance/dpa/CTK/L. Hajsky

الیگزانڈر ڈُوبچیک نے تحلیل ہو جانے والے یورپی ملک چیکوسلوواکیہ کی سربراہی پچاس برس قبل پانچ جنوری کو سنبھالی تھی۔ انہوں نے اقتدار سنبھالتے ہی سخت گیر پالیسیوں کو نرم کرنے کا فیصلہ کیا۔ مطلق العنانیت کی جگہ جمہوری اور قدرے آزاد پالیسیوں کو متعارف کرانے کو چیکو سلواکیہ میں ’پراگ اسپرنگ‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

سابقہ کمیونسٹ ملک چیکوسلوواکیہ کا وجود اب تاریخ کے صفحات میں تو موجود ہے لیکن حقیقت میں ختم ہو چکا ہے اور اس کی جگہ دو نئے ملک سامنے آ چکے ہیں۔

کیوبا کے سابق صدر فیڈل کاسترو انتقال کر گئے

جرمن صدر کی کیمونزم پر تنقید

کیوبا: کیا ساٹھ برس پہلے کا انقلاب کامیاب رہا؟

نو اکتوبر 1989ء: جرمن اتحاد کا پہلا سنگ میل

سلاوک رہنما الیگزانڈر ڈُوبچیک کی جانب سے سابقہ چیکوسلوواکیہ میں متعارف کرائے جانے والے لبرل رویے کو سابقہ سوویت یونین نے پسند نہیں کیا۔ وقتاً فوقتاﹰ تنقید اور سرزنش کے باوجود ڈُوبچیک نے اپنی ڈگر تبدیل نہ کی۔ ان پالیسیوں کو وارسا پیکٹ کے منافی تصور کیا گیا۔

سرد جنگ کے دور میں مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے مقابلے پر کمیونسٹ ملکوں کا اتحاد اور تنظیم وارسا پیکٹ کہلاتی تھی۔

بیس اور اکیس اگست سن 1968 کی درمیانی شب میں کمیونسٹ ملکوں کے تنظیم کے ٹینک اور ہزارہا فوجی سابقہ چیکوسلوواکیہ میں داخل ہو گئے اور ’پراگ اسپرنگ‘ کو اپنے بوٹوں تلے روند ڈالا۔

Tschechoslowakei Geschichte Samtene Revolution Prag 1989 Alexander Dubcek
الیگزانڈر ڈُوبچیک نے سابقہ یورپی ملک چیکوسلوواکیہ کی سربراہی پچاس برس قبل پانچ جنوری کو سنبھالی تھیتصویر: ullstein bild - impact

وارسا پیکٹ کے ممالک سابقہ سوویت یونین، بلغاریہ، ہنگری، سابقہ مشرقی جرمنی اور پولینڈ کے ڈھائی لاکھ سے زائد فوجی پراگ کی سڑکوں پر مارچ پاسٹ کرتے ہوئے داخل ہوئے تھے۔ اس فوج کشی نے ڈُوبچیک کی عملداری کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔ فوج کشی کے فوری بعد انہوں نے اپنے منصب سے استعفیٰ نہیں دیا تھا۔

تجزیہ کاروں کے مطابق وہ تقریباً آٹھ ماہ تک وارسا پیکٹ کے رکن ملکوں اور خاص طور پر سابقہ سوویت یونین کے ساتھ بحث و تمحیص جاری رکھے رہے اور جب وہ اس وقت سوویت یونین کی قیادت کو قائل نہ کر سکے تو وہ سترہ اپریل سن 1969 کو چیکوسلوواکیہ کی حکمران سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے علیحدہ ہو گئے۔

جو کام سن 1968 میں الیگزانڈر ڈُوبچیک نہیں کر سکے تھے، تقریباً بیس برس بعد سن 1989 میں چیکوسلوواکیہ کے عوام نے کمیونسٹ کنٹرول کی بیڑیاں توڑنے کی عملی جد و جہد شروع کر دی۔ سب سے دچسپ بات تھی کہ الیگزانڈر ڈُوبچیک، اُس وقت ابھی زندہ تھے اور انہوں نے لبرل پالیسیوں کا جو بیج بویا تھا وہ بیس برس بعد ایک طوفان بن کر اٹھ گیا تھا۔

Prager Frühling - Einmarsch (picture alliance/akg-images)
تصویر: picture-alliance/akg-images

سن 1989 کے عوامی انقلاب کو سابقہ چیکوسلوواکیہ میں ’ویلوٹ انقلاب‘ قرار دیا جاتا ہے۔ ڈُوبچیک پراگ کے مرکزی چوک وینسیسلس اسکوائر میں چوبیس نومبر سن 1989 کے اس عظیم الشان عوامی اجتماع میں بھی شریک تھے، جس نے کمیونسٹ حکومت کو ختم کر دیا تھا۔

اس کمیونسٹ حکومت کے خاتمے پر ایک ریفرنڈم کے نتیجے میں چیکوسوواکیہ بھی دو ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ ایک ریاست اب چیک جمہوریہ اور دوسری سلوواکیا کہلاتی ہے۔ ان کا قیام یکم جنوری سن 1993 کو عمل میں آیا تھا۔ الیگزانڈر ڈُوبچیک بعد میں سلوواکیا کی سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ بن گئے تھے۔