پردیس میں تنہا شامی عورتیں اور ہر لمحہ گھورتے مرد
23 دسمبر 2015سنہری رنگت والی فلسطینی لڑکی نورا کی عمر محض بائیس برس ہے۔ وہ شادی شدہ ہے اور اس کا ایک بیٹا بھی ہے۔ وہ شام کے شہر دمشق کے نواح میں واقع فلسطینی مہاجرین کے یرموک کیمپ کی رہنے والی ہے۔ خانہ جنگی کے باعث یہ کیمپ بھی تباہ ہو چکا تھا لیکن پھر بھی وہ اپنے خاوند اور بیٹے کے ساتھ وہیں رہتی رہی۔
آج وہ بیروت کے نواح میں قائم شتیلا مہاجرین کیمپ میں اپنے بیٹے کے ساتھ بیٹھی اس دن کو یاد کر رہی ہے جب اس کے خاوند نے کام پر جانے سے پہلے اپنے بیٹے کا گال چوما تھا اور پھر نورا کا ہاتھ پکڑ کر جلد لوٹ آنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پھر وہ کبھی لوٹ کر نہ آ سکا۔
سر پر سلیٹی رنگت کا اسکارف لیے نورا نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’’کام پر جانا ان کے لیے خطرناک تھا۔ انہیں اسد حکومت کی جانب سے بنائی گئی تین چوکیوں سے گزرنا پڑتا تھا۔ میں انہیں روکتی تھی، لیکن وہ کہتے تھے کہ گھر کا خرچہ چلانے کے لیے پیسے تو چاہيیں۔‘‘
نورا کا شوہر چوبیس جون 2013ء کو لاپتہ ہوا تھا، اس کے ایک مہینے بعد اسد حکومت نے یرموُک کیمپ کا محاصرہ کر لیا تھا جس کی وجہ سے ہزاروں شہری وہاں پھنس گئے تھے۔ نورا نے دو برس تک اپنے خاوند کا انتظار کیا اور اس کے بعد وہ شام سے ہجرت کر کے بیروت کے جنوبی مضافات میں قائم شتیلا پناہ گزین کیمپ میں آ گئی جہاں چاروں طرف غربت دکھائی دیتی ہے۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے مطابق شامی خواتین کی ایک چوتھائی تعداد ایسی ہے جن کو کسی مرد کا سہارا نصیب نہیں رہا اور انہیں اپنے خاندان کی کفالت کی خاطر کام کرنا پڑتا ہے۔ اب نورا بھی ایسی ہی ایک تارک وطن ہے جسے اپنا اور اپنے اکلوتے بیٹے کا پیٹ پالنے کے لیے کام کرنا ہے۔ یو این ایچ سی آر کے مطابق ان خواتین کو جنسی استحصال، تشدد اور ڈپریشن کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
راندہ حدید لبنان کی ایک مقامی این جی او سے منسلک ہے جو فلسطینیوں کے پناہ گزین کیمپ میں رہنے والی خواتین کے ساتھ کام کرتی ہے۔ حدید کا کہنا ہے کہ مجبوری کے باعث زندگی میں پہلی بار کام کرنے والی بیوہ خواتین کو جنسی استحصال اور بلیک میلنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ خصوصاﹰ جب کام دینے والوں کو معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہمراہ خاوند، باپ یا بھائی میں سے کوئی نہیں ہے۔
نورا نے دہی بنانے کی ایک فیکٹری میں کام کر رہی تھی۔ اس کا کہنا ہے، ’’فیکٹری میں کام کرنے والے مرد ہر لمحہ مجھے گھورتے تھے۔ میں خوف زدہ رہتی تھی۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے وہ مجھے کسی بھی وقت چھونا شروع کر دیں گے۔‘‘
حدید کہتی ہیں کہ شامی خواتین کو کوئی قانونی تحفظ بھی دستیاب نہیں ہے۔ اسی لیے یہ عورتیں عام طور پر کوشش کرتی ہیں کہ وہ کام کی جگہ پر جھوٹ بول دیں کہ ان کے خاوند یا باپ میں سے کوئی ان کے ہمراہ موجود ہے۔
جب اپنی گود کے پالے بیٹے ’مرد‘ بن جائیں
عرب معاشرے میں بھی ’مرد‘ کا کردار خاندانوں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے۔ اسی لیے ان شامی خاندانوں میں جب گھر میں کوئی بڑا مرد نہیں رہ جاتا تو کم سن بیٹوں پر ’خاندان کے سربراہ‘ کا کردار ادا کرنے کا پریشیر بڑھ جاتا ہے۔
ايک لبنانی سماجی کارکن کا کہنا ہے کہ ’’ہمارے نوٹس میں ایسے واقعات بھی آئے ہیں کہ لڑکے نے اپنی ماں کو صرف اس لیے مارا پیٹا کیوں کہ اس کے خیال میں ایسا کرنا خاندان میں ’مرد‘ بننے کے لیے ضروری ہے۔‘‘
’عباد‘ نامی این جی او کے ساتھ منسلک سماجی کارکن رولا المصری کا کہنا ہے کہ کچھ بیوائیں اپنے نوعمر لڑکوں کو کام پر بھیج دیتی ہیں۔ جب کہ کچھ اپنی کم سن لڑکیوں کی شادی صرف اس لیے کر دیتی ہیں کیوں کہ انہیں لڑکیوں کے عوض ’مقدم‘ یا جہیز کی صورت میں پیسے مل جاتے ہیں۔ بے وطنی اور غربت کے شکار ایسے خاندانوں میں لڑکیوں کو کم عمری میں بیاہنا عام بات بن چکی ہے۔