1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پرویز الہی کے لیے وزارت اعلٰی، پی ڈی ایم کے لیے دھچکا

عبدالستار، اسلام آباد
28 مارچ 2022

چوہدری پرویز الٰہی کو پی ٹی آئی کی طرف سے وزیراعلٰی پنجاب بنائےجانےکی خبرنے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ایک دفعہ پھر ہلچل مچا دی ہے، ناقدین حکومت کےاس فیصلےکو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے لیے بہت بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/498jw
Pakistan | pakistanische Politiker, die sich unter dem Bündnis von PDM in Lahore treffen
تصویر: Tanvir Shahzad/DW

اس فیصلے سے پی ٹی آئی کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اور اب وہ پرامید ہیں کہ تحریک عدم اعتماد ہر صورت میں ناکام ہوگی۔ سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ اگر پی ٹی آئی پانچ سیٹوں پر پاکستان مسلم لیگ ق کو وزارت اعلٰی کا عہدہ پیش کرسکتی ہے تو ایم کیو ایم کو 7 نشستوں کے ساتھ ممکنہ طور پر گورنر شپ یا ایک اور وفاقی وزارت دے سکتی ہے۔

بڑا دھچکا

پی ٹی آئی کے رہنما اور رکن قومی اسمبلی محمد اقبال خان آفریدی کا کہنا ہے کہ یہ ان کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جو پاکستان کو ایک غلام ریاست بنانا چاہتے تھے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ''یہ پی ڈی ایم کے اراکین کے لیے بہت بڑا دھچکا ہے جو پاکستان کے خلاف سازش کر رہے تھے اور پاکستان کو غلام ریاست بنانے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس سے ہمارے حوصلے بہت بلند ہوئے ہیں پی ٹی آئی کے حلقوں میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ہے اس سے ہم مزید پر اعتماد ہو گئے ہیں اور اب ہم ایم کیو ایم کو بھی منا لیں گے اور اس تحریک عدم اعتماد کو ہر صورت میں شکست ہوگی۔‘‘

پاکستان میں ماضی کے سیاسی اتحادوں کی ٹوٹ پھوٹ اور پی ڈی ایم

پی ڈی ایم کی ساکھ کو نقصان

کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ پی ڈی ایم کے رہنماؤں کو چودھری پرویز الٰہی ایم کیو ایم اور ایسی سیاسی پارٹیوں کے پاس جانا ہی نہیں چاہیے تھا جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ ان کو غیر مرئی طاقتوں نے بنایا ہے یا وہ غیر مرئی طاقتوں کے اشاروں پہ چلتے ہیں۔ اسلام آباد سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار ایوب ملک کا کہنا ہے کہ اس سے پی ڈی ایم پر انگلیاں اٹھیں گی۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''لوگ پوچھیں گے کہ پی ڈی ایم کو ان کے پاس جانے کی ضرورت ہی کیا تھی اور ان کو مختلف عہدوں کی پیشکش کرنے کی ضرورت ہی کیا تھی۔ عمران خان نے مہنگائی میں اضافہ کیا ہے لیکن عمران خان کو ہٹارہے ہیں، اس سے بھی بد تر لوگوں کو اقتدار میں لانے کی کوشش کرنے کی کیا ضرورت تھی۔‘‘

 ان کا مزید کہنا تھا کہ اس فیصلے سے ملک میں جمہوریت بھی متاثر ہوگی۔ وہ کہتے ہیں،''اس فیصلے سے سیاست دان مزید بدنام ہوں گے اور عوام میں یہ تاثر جائے گا کہ وہ صرف اپنے مفاد کے لیے اور اقتدار حاصل کرنے کے لیے یہ سب کچھ کر رہے تھے اور ان کا مطمح نظر کبھی عوام کی خدمت کرنا یا سویلین سپرمیسی قائم کرنا نہیں تھا بلکہ اقتدار کے لیے کسی کے در پے چلے جانا تھا اور اقتدار کے لیے کسی سے بھی سودے بازی کر لینا تھا۔‘‘

Pakistan Islamabad Pakistans Peoples Party
کچھ عرصہ قبل پی پی پی اور ایم کیو ایم کے ایک وفد کی اسلام آباد میں ملاقاتتصویر: Pakistan peoples party

پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے سابق صدر لطیف آفریدی کا کہنا ہے کہ جلسے جلوس کرنا اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پی ڈی ایم کے پاس مطلوبہ تعداد نہیں ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، '' اور اب پرویز الٰہی کی طرف سے حکومت کی حمایت نے پی ڈی ایم کے تمام منصوبوں پر پانی پھیر دیا ہے اور اب اس سیاسی اتحاد کے لیے بڑا مشکل ہوگا کہ وہ عدم اعتماد میں کامیاب ہو۔‘‘

ایم کیوایم کی اہمیت بڑھ گئی

پی ٹی آئی اور مسلم لیگ ق کی قربت کے بعد ایم کیو ایم کی ایک بار پھر اہمیت بڑھ گئی ہیں۔ اسلام آباد میں کئی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پی ڈی ایم اور حکومت دونوں ایم کیو ایم سے قربت بڑھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور ان کے مطالبات کو سننے اور ماننے کی حامی بھر رہی ہیں۔

اعلیٰ ایوانوں میں ضمیر بیچا جائے گا تو ملک کا کیا ہو گا؟ عمران خان

ذرائع کے مطابق کچھ ہی دیر بعد ایم کیو ایم سے پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کی ملاقات اسلام آباد میں متوقع ہے جب کہ آج رات کو دس بجے پی ٹی آئی کا ایک وفد بھی ایم کیو ایم سے ملے گا۔ تاہم کئی ناقدین کے خیال میں ایم کیو ایم کے مطالبات پیپلز پارٹی کے لیے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہو سکتے۔ ایم کیو ایم کی ایک رہنما نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''شہری سندھ میں انتظامی صوبہ، مردم شماری کے حوالے سے تحفظات، ڈومیسائل کے حوالے سے مسائل کا حل، بلدیاتی اختیارات کو صحیح معنوں میں نچلی سطح تک لے کر جانا، تعلیم، صحت اور دیگر مسائل ایم کیوایم کے لیے بہت اہم ہیں۔ سابق صدر زرداری نے ان تمام مطالبات کو جائز قرار دیا تھا لیکن پیپلز پارٹی کی طرف سے ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا ہے۔‘‘

ایم کیوایم کی رہنما کا مزید کہنا تھا۔ ''ہمیں صرف زبانی یقین دہانیاں نہیں چاہیے بلکہ ٹھوس اقدامات چاہیے۔ سپریم کورٹ بلدیاتی امور کے حوالے سے پہلے ہی فیصلہ دے چکا ہے تو ہمیں صحیح معنوں میں اس فیصلے پر عملدرآمد چاہیے۔ ہم نے کسی وزارت یا گورنر شپ کا مطالبہ نہیں کیا اور نہ ہی ہم ایسا کرنا چاہتے ہیں۔ ہم عوام کے مسائل حل کرنا چاہتے ہیں۔ شہری علاقوں میں اس وقت بہت بے چینی ہیں جس کو صرف سیاسی اور انتظامی اقدامات کے ذریعے ختم کیا جا سکتا ہے۔