پرویز مشرف کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری
12 فروری 2011راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں قائم انسداد دہشتگردی کی عدالت کے جج رانانثار نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کی جانب سے پیش کی گئی چارج شیٹ،سرکاری وکیل کے دلائل اور گواہوں کے بیانات سننے کے بعد جنرل مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کرتے ہوئے انہیں انیس فروری کو عدالت میں پیش ہونے کا حکم دیا ہے۔
ہفتے کے روز سماعت کے دوران سرکاری وکیل چوہدری ذوالفقار علی نے عدالت کو بتایا کہ پرویز مشرف ان دنوں لندن میں مقیم ہیںاور ایف آئی اے نے تفتیش کے حوالے سے انہیں ایک سوالنامہ بھجوایا تھا جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔سرکاری وکیل نے عدالت سے استدعا کی اس قتل کے مقدمے کی تحقیقات مکمل کرنے کے لیے پرویز مشرف کی گرفتاری ضروری ہے لہذا ان کے وارنٹ گرفتاری جاری کیے جا ئیں۔ اس موقع پر انٹیلی جنس بیورو کے سابق سربراہ بریگیڈیئر (ر) اعجاز شاہ اور وزارت داخلہ میں قائم کرائسز مینجمنٹ سیل کے سابق سربراہ بریگیڈئر (ر) جاوید اقبال چیمہ نے عدالت میں اپنے بیانات قلمبند کروائے۔ سرکاری ٹی وی کے مطابق بریگیڈئیر اعجاز شاہ نے اپنے بیان میں انکشاف کیا ہے کہ سابق صدر جنرل مشرف کو بے نظیر قتل کی سازش کا پہلے سے علم تھا ۔انہوں نے کہا کہ ستائیس دسمبر کو جب بینظیر بھٹو کو قتل کیا گیا تو وہ اس کے فوری بعد جنرل مشرف کی سربراہی میں ہونے والے اعلی سطحی اجلاس میں بھی شریک تھے جس میں فیصلہ کہ بریگیڈیئر جاوید چیمہ کو حکومتی ترجمان بنا کر ایک پریس کانفرنس میں بینظیرکے قتل کا اعلان کیا جائے۔ اس موقع پر بریگیڈئیر جاوید اقبال چیمہ نے اپنے بیان میں کہا کہ انہیں بے نظیر کے قتل کے بعد پریس کانفرنس میں بیت اللہ محسود اور ایک مولوی کے درمیان گفتگو کی آڈیو ٹیپ پیش کرنے کا حکم جنرل مشرف نے دیا تھا۔
جنرل(ر)پرویز مشرف کے وارنٹ گرفتاری جاری کئے جانے پر ردعمل کا اظہارکرتے ہوئے وزیر اطلاعات ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان نے کہا کہ '' عدالت نے جو وارنٹ جاری کیے ہیں اس سلسلے میں حکومت ہر طرح کے تعاون کے لئے تیار ہے اور اگر جنرل مشرف کی گرفتاری کے لئے انٹرپول سے رابطہ کرنے کا کہا گیا تو حکومت عدالتی حکم کی تعمیل کرے گی۔''
ادھر ملک کے مختلف حلقوں میں جنرل مشرف کی وارنٹ گرفتار ی کو بے نظیر قتل کیس کی تحقیقات میں ایک اہم پیش رفت قرار دیا جا رہا ہے۔ قانونی ماہرین کے مطابق اب جنرل مشرف کو خود یا اپنے وکیل کے ذریعے عدالت کے رو برو پیش ہونا پڑے گا اور اگر انہوں نے ایسا نہ کیا تو پھر عدالت انہیں اشتہاری قرار دے کر ایف آئی اے کو انٹرپول سے ریڈ وارنٹ حاصل کر کے جنرل مشرف کو بیرون ملک سے گرفتار کرنے کا حکم دے سکتی ہے۔
دوسری جانب جنرل مشرف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ انہیں محض سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جنرل مشرف کے مشیر بیرسٹر محمد علی سیف کے مطابق عدالت کے سامنے جو تحقیقاتی رپورٹ پیش کی گئی اور استغاثہ نے جوطریقہ اختیار کیا اس میں بہت سے قانونی سقم موجود ہیں۔ بیرسٹر سیف کے مطابق جنرل مشرف فی الحال وطن واپس نہیںآئیں گے۔ البتہ جب وہ وطن واپس آئے اپنے اوپر مختلف عدالتوں میں قائم مقدمات کا سامنا کریں گے۔
اس سے قبل جنرل مشرف مختلف بیانات اور انٹرویو میں بینظیر بھٹو قتل کیس میں ملوث ہونے سے انکار کے ساتھ ساتھ یہ بھی واضح کر چکے ہیں کہ وہ اس مقدمے کے سلسلے میں کسی بھی عدالت کے سامنے پیش نہیں ہونگے۔ ایف آئی اے کے ڈائریکٹر خالد قریشی کی سربراہی میں قائم تحقیقاتی ٹیم نے گزشتہ پیر کو عدالت میں جو عبوری چالان پیش کیا تھا اس میں جنرل مشرف کو بینظیر قتل سازش میں ملوث قرار دے کر ان کا نام ملزمان کی فہرست میں شامل کیاگیا تھا۔
دریں اثنا پیپلز پارٹی کی قیادت کو اپنی جماعت کے اندر سے اور عوام، ذرائع ابلاغ اور اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے تین سال گزر جانے کے باوجود بینظیر کے قاتلوں کا تعین نہ کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔ مبصرین کے مطابق اسی دبائو کی بنیاد پر پیپلز پارٹی حکومت اب بینظیر کے قاتلوں کی گرفتاری میں متحرک نظر آ رہی ہے کیونکہ انہیں معلوم ہے کہ آئندہ انتخابات میںبھی بینظیر بھٹو کے قاتلوں کی گرفتاری ان کے لئے ایک اہم سوالیہ نشان ہو گی۔
رپورٹ: شکور رحیم،اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ