1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پشاور: دو دھماکوں میں 8 افراد ہلاک

11 اگست 2011

دو ماہ کے وقفے کے بعد ایک مرتبہ پھر پشاور میں دو دھماکوں میں پانچ پولیس اہلکاروں سمیت آٹھ افراد ہلاک جبکہ 31زخمی ہو گئے ہیں۔ ان دھماکوں میں پولیس کو ہی نشانہ بنایا گیا۔ مرنے والوں میں ایک خاتون خود کُش حملہ آور بھی ہے۔

https://p.dw.com/p/12F0N
جمعرات کے دھماکے زخمیوں کو طبی امداد دی جا رہی ہے
پشاور دھماکہ، زخمیتصویر: DW/Faridullah Khan

پہلا دھماکہ اس وقت کیا گیا، جب یکہ توت پولیس کی گاڑی لاہوری گیٹ کے قریب سے گذر رہی تھی۔ تب پاس کھڑی ہتھ ریڑھی میں نصب شدہ ریموٹ کنٹرول بم دھماکہ ہوا، جس کے نتیجے میں ایک خاتون اور ایک بچے کے علاوہ پانچ پولیس اہلکار بھی جاں بحق ہو گئے۔

پولیس کے سینئر افسر اعجاز خان کے مطابق حملہ آورکا نشانہ پولیس وین ہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ پولیس نے پشاور اور نواحی علاقوں میں گذشتہ دو ماہ سے دہشت گردوں کے خلاف موثر کاروائی کی ہے جبکہ حفاطتی انتظامات بھی سخت کر دیے گئے ہیں اور یہ اس کا رد عمل ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پہلے حملے کے دو گھنٹے بعد ہونے والے دوسرے دھماکے میں ایک خاتون خود کش حملہ آور نے ایک پولیس چیک پوسٹ پر دستی بم پھینکتے ہی خود کو دھماکے سے اڑا دیا تاہم خود کش جیکٹ مکمل طور پر نہ پھٹ سکی، جس کی وجہ سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔ پولیس نے خودکش حملہ آور لڑکی کے جسم کے ٹکڑے اور دیگر شواہد اکٹھے کر کے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔

جمعرات گیارہ اگست کو پشاور میں ریموٹ کنٹرول بم کا نشانہ بننے والی پولیس وَین
جمعرات گیارہ اگست کو پشاور میں ریموٹ کنٹرول بم کا نشانہ بننے والی پولیس وَینتصویر: DW/Faridullah Khan

بم ڈسپوزل سکواڈ کے اہلکاروں کا کہنا ہے کہ پہلے دھماکے میں آٹھ جبکہ دوسرے میں چھ کلو گرام بارودی مواد استعمال کیا گیا۔ قبائلی علاقے باجوڑ سے تعلق رکھنے والے قومی اسمبلی کے سابق رکن اور جماعت اسلامی فاٹا کے صدر ہارون الرشید نے دہشت گردی کے نہ ختم ہونے والے واقعات اور حکومتی دعووں کے بارے میں ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ جب تک وفاقی حکومت اپنی پالیسیاں تبدیل نہیں کرے گی، دہشت گردی میں کمی نہیں آ سکتی:”آج ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کے واقعات میں بے گناہ افراد مارے گئے ہیں۔ ہمارا تو روز اول سے یہی مطالبہ ہے کہ پاکستان اپنی پالیساں تبدیل کرے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ کے اتحاد سے نکل آئے۔ آج اور اس سے قبل ہونے والے واقعات کی وجہ پاکستان کا امریکہ کا ساتھ دینا اور ان کی مرضی کے مطابق فیصلے کرنا ہے۔ حکمرانوں نے ملک کو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں فرنٹ لائن بنا دیا ہے۔ خود امریکہ افغان طالبان سے مذاکرات کر رہا ہے جبکہ پاکستان سے ڈو مور کا مطالبہ کرتا ہے، جس نے پاکستان اور بالخصوص قبائلی علاقوں اور خیبر پختونخوا کا امن تباہ کر کے رکھ دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر پاکستان امریکی اتحاد سے نکل آئے اور عوام اور پارلیمنٹ کی رائے کو سامنے رکھتے ہوئے پالیسیاں بنائے، تو یہاں امن آسکتا ہے۔‘‘

پشاور میں اس سال مئی میں سڑک کنارے رکھے ایک بم کے دھماکے سے تباہ ہونے والی کار
پشاور میں اس سال مئی میں سڑک کنارے رکھے ایک بم کے دھماکے سے تباہ ہونے والی کارتصویر: AP

اس واقعے کے بعد پولیس نے علاقے کو گھیرے میں لے کر مشکوک افراد کی تلاش شروع کر دی ہے۔ اگرچہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ یہ سکیورٹی اہلکاروں کی کوتاہی نہیں ہے تاہم رمضان المبارک کے شروع ہوتے ہی خفیہ اداروں کو یہ اطلاعات موصول ہو رہی تھیں کہ شہر کی 75 مساجد میں سے کسی میں بھی دہشت گردی کا کوئی بڑا واقعہ رونما ہو سکتا ہے۔

پاکستان گذشتہ دس سال سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں عالمی اتحاد کا حصہ ہے۔ اس دوران پاکستان کا صوبہ پختونخوا دہشت گردی کے لپیٹ میں رہا ہے جبکہ بم دھماکے اور خود کش حملے روز کا معمول بن چکے ہیں۔ ان حملوں میں اب تک ہزاروں افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں جبکہ دہشت گرد زیادہ تر پولیس کو نشانہ بنا رہے ہیں۔ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں نے اب تک ہزاروں ملوث افراد کو حراست میں لیا ہے تاہم زیادہ تر کو ابھی تک عدالتوں سے کوئی سزا نہیں ملی ہے۔

رپورٹ: فرید اللہ خان، پشاور

ادارت: امجد علی

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں