پشاور لنڈی کوتل سفاری، اب ماضی کی یاد
پشاور سے لنڈی کوتل تک جانے والی سفاری ریل گاڑی کا سلسلہ مئی 2007ء میں ختم کر دیا گیا تھا۔ یہ سفاری انتہائی دشوار گزار پہاڑی راستوں اور پہاڑوں کے اندر بنائی گئی 34 سرنگوں سے گزرنے والے 50 کلومیٹر طویل ٹریک پر چلتی تھی۔
پشاور ریلوے اسٹیشن، سفاری ٹرین کا نقطہ آغاز
پشاور ریلوے اسٹیشن صوبہ خیبر پختونخوا کا سب سے بڑا سٹیشن ہے۔ یہاں سے ہر روز ملک کے مختلف علاقوں کے لیے ریل گاڑیاں چلتی ہیں۔ سفاری ٹرین کے لیے لوگ اس سٹیشن پر جمع ہوتے تھے۔ سال 1947ء سے 1982ء تک یہاں سے ہر اتوار کو صبح 7:30 پر ریل گاڑی لنڈی کوتل تک جاتی تھی۔
ایئرپورٹ کے احاطے سے ریلوے ٹریک
پشاور سے لنڈی کوتل جانے والا ریلوے ٹریک باچاخان انٹرنیشنل ایئرپورٹ (پشاور ایئرپورٹ) کے اندر سے گزرتا ہے۔ یہ ایک بہت بڑا مسئلہ تھا اور گاڑی گزرنے سے دو سے تین دن پہلے ایئر پورٹ حکام سے اس کی اجازت لینا پڑتی تھی۔ سکیورٹی حالات کے پیش نظر یہ ٹریک اب مکمل طور پر بند کیا جاچکا ہے۔
ریلوے ٹریک پر ناجائز قبضہ
مختلف مقامات جیسے نوتہیہ پایان، بورڈ بازار اور کارخانوں مارکیٹ سے گزرنے والی ریلوے کی پٹڑی کے دونوں اطراف لوگوں نے عارضی دوکانیں بنالی ہیں، جن کے خلاف ریلوے حکام متعدد بار کارروائی کر چکے ہیں لیکن یہ لوگ دوبارہ ناجائز قبضہ کر لیتے ہیں۔ انہی جگہوں پر عیدالاضحٰی کے موقع پر مویشیوں کی منڈیاں بھی لگتی ہیں۔
ریلوے اہلکار بدستور ’ڈیوٹی پر‘
ریلوے ٹریک پر مختلف مقامات پر پھاٹک بنائے گئے تھے جو ریل گاڑی گزرنے سے چند لمحے پہلے بند کیے جاتے تھے۔ ان مختلف پھاٹکوں پر اب بھی ریلوے اہکار تعینات ہیں۔ گو مئی2007ء کے بعد یہاں سے کوئی ریل گاڑی نہیں گزری تاہم یہ ریلوے اہلکار باقاعدگی سے تنخواہیں لے رہے ہیں۔
تباہ شدہ پُل اور ناکارہ ٹریک
برصغیر پر برطانوی راج کے دوران تعمیر کیے گئے اس قسم کے کئی پل جو سڑکوں کے اوپر یا ساتھ واقع ہیں، شدت پسندوں کے نیٹو سپلائی پر حملوں کے نتیجے میں مکمل یا جزوی طور پر ناکارہ ہو چکے ہیں۔
جمرود اسٹیشن، خاصہ دار فورس کا مرکز
جمرود اسٹیشن پر ہر اتوار سینکڑوں قبائل، لنڈی کوتل جانے کے لیے ریل گاڑی کا انتظار کرتے تھے۔ 2008ء کے بعد خاصہ دار فورس اس اسٹیشن کو چوکی کے طور پر استعمال کررہی ہے مگر اس اسٹیشن پر تعینات ریلوے اہلکار بھی یہاں حاضری دینے آتے ہیں۔
92 پُل، اکثر قابل استعمال
پشاور سے لنڈی کوتل تک اس طرز کے تقریباﹰ 92چھوٹے بڑے پل ہیں، جن میں سے زیادہ تر اب بھی درست حالت میں موجود ہیں۔ ان کے نیچے سے ہر روز ہزاروں کی تعداد میں چھوٹی بڑی گاڑیاں گزرتی ہیں۔
سفاری ٹرین، یادگار تجربہ
پہاڑوں کے درمیان خوبصورت مقامات سے گزرے والی سفاری ٹرین سیاحوں کے لیے خصوصی دلچسپی لیے ہوتی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دور دراز ممالک سے سیاح اس ٹرین میں سفر کرنے آتے تھے۔ سفاری ٹرین میں ہائی کمیشن آف یورپ کا 15 رکنی وفد بھی ان علاقوں کی سیر کرچکا ہے۔
50 کلومیٹرٹریک پر 34 سرنگیں، ایک ریکارڈ
پہاڑوں کے اندر سے کافی محنت اور مہارت سے بنائے گئی ان سرنگوں کی تعداد 34 ہے۔ دنیا کے کسی بھی ملک میں50 کلو میٹر کے دشوار گزار پہاڑی راستے میں ٹنلز کی یہ سب سے زیادہ تعداد ہے۔ ان سب کی لمبائی ایک دوسرے سے مختلف ہے۔
بیشتر سرنگیں خطرے میں
لینڈ سلایڈنگ کی وجہ سے بیشتر سرنگوں کے داخلی اور خارجی راستے کسی حد تک بند ہوچکے ہیں۔ اگر ان کی درست دیکھ بھال اور بحالی کے اقدامات نہ کیے گئے تو یہ شاہکار ٹنلز ماضی کا نشان بن جائیں گی اور صرف تصاویر اور کتابوں تک محدود ہوجائیں گی۔
ریلوے ٹریک، بارشوں اور لینڈ سلائیڈنگ کی نذر
2010ء کی طوفانی بارشوں اور سیلابوں کی وجہ سے اکثر مقامات پر پہاڑوں میں ریلوے پٹڑی اکھڑ گئی تھی یا پھر لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے ناکارہ ہوچکی ہے۔ جس کو مستقبل میں فعال بنانا ایک بڑا چیلنج ہوگا۔
سفولہ اسٹوپہ
پشاور لنڈی کوتل ریلوے ٹریک علی مسجد اورلنڈی کوتل کے درمیان واقع سفولہ (Saphola) اسٹوپہ کے ساتھ سے گزرتی ہے۔ سیاحوں کے لیے خصوصی دلچسپی کا حامل یہ اسٹوپہ کافی حد تک خراب ہو چکا ہے۔