پنجاب کالج کا واقعہ: طلبہ کا احتجاج کیوں پھیل رہا ہے؟
17 اکتوبر 2024آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے سب سے بڑے صوبہ پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے شروع ہونے والے احتجاج کے بعد اب گزشتہ تین دنوں میں طلبہ نے فیصل آباد، جہلم، وہاڑی اور بہاولپور سمیت پنجاب کے کئی دوسرے شہروں میں بھی احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ آج جمعرات کے روز بھی راولپنڈی میں طلبہ نے پنجاب کالج میں ہونے والے مبینہ واقعہ کے حوالے سے شدید احتجاج کیا ہے۔
لاہور: طالبہ کے ساتھ مبینہ زیادتی، پولیس کے ساتھ جھڑپوں میں دو درجن طلبا زخمی
لاہور: طالبہ کے مبینہ ریپ کا واقعہ، ’فیک نیوز‘ یا حقیقت؟
اسلامی جمیعت طلبہ جنوبی پنجاب کے ناظم ابو ذر غفاری کے مطابق پولیس نے سینکڑوں طلبہ کو حراست میں لے رکھا ہے اور گرفتاریوں اور چھاپوں کا عمل اب بھی جاری ہے: ''احتجاج کرنے والے طلبہ پر مقدمات درج کیے جا چکے ہیں جبکہ پولیس نے اس واقعے کے حوالے سے سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بارے میں پوسٹیں اور ویڈیوز شئیر کرنے والوں کے خلاف پرچہ درج کرکے ان کی گرفتاریوں کے لئے بھی چھاپے مارے جا رہے ہیں۔‘‘
واضح رہے کہ کچھ روز قبل پنجاب کالج کے گلبرگ کیمپس میں میں ایک لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کی پوسٹ سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی جس کے بعد طلباء کی جانب سے نجی کالج کے مختلف کیمپسز کے باہر شدید احتجاج کیا گیا۔ گزشتہ روز وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے لاہور میں نجی کالج کی طالبہ سے مبینہ زیادتی کو پراپیگنڈہ قرار دیتے ہوئے جعلی خبر پھیلانے میں ملوث عناصر کےخلاف بھرپور کریک ڈاؤن کا حکم دیا تھا۔
سینئر تجزیہ کار سلمان عابد نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''حکومت کی 'مس ہینڈلنگ‘ کی وجہ سے طلبہ کے اضطراب میں اضافہ ہو رہا ہے۔ نوجوان پہلے ہی نظام سے مایوس ہیں، معاشی بدحالی کی وجہ سے بھی پریشان کئی طلبہ ملک میں اپنا مستقبل نہ ہونے کی وجہ سے ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔ ایسے میں پنجاب حکومت اور پولیس حکام کی طرف سے طلبہ پر تشدد کرنے سے صورت حال خراب ہو گئی ہے اور اس واقعے کے حوالے سے چار مختلف قسم کی بیانات نے کنفیوژن کو اور بڑھا دیا ہے۔‘‘
سلمان عابد کے بقول مریم نواز کی طرف سے میاں عامر کی حمایت میں بیان دینا اور عُظمٰی بخاری کی طرف سے میڈیا کو دھمکانا اور کالج انتظامیہ کی طرف سے طالبات پر دباؤ ڈالنا اور پولیس کا طلبہ پر تشدد طلبہ میں رد عمل پیدا کر رہا ہے۔ ان کے خیال میں حکومت اس واقعے کی شفاف تحقیقات کی بجائے اس واقعے میں خود فریق بن چکی ہے: ''حکومت کا اس سارے واقعےکو کسی دوسری سیاسی جماعت پر ڈال کر پوائنٹ اسکورنگ کرنا ظاہر کرتا ہے کہ حکومت اس معاملے کو حل کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے طلبہ کی بات نہ سننے اور انہیں انگیج نہ کرنے اور ان پر سختی کرنے کی وجہ سے احتجاج پھیل رہا ہے۔
اس احتجاج میں شریک دائیں بازو کی طلبہ تنظیم پروگریسو اسٹوڈنٹس کولیکٹیو کے ترجمان علی عبداللہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کا احتجاج صرف ایک واقعے کے خلاف نہیں بلکہ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے ریپ کے واقعات کے خلاف ہے۔ ان کے بقول، ''بہاولپور میں طالبات کے ویڈیو سکینڈل اور بلوچستان میں طالبات کے واش رومز میں کیمروں کی موجودگی سمیت ملک میں ایسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے جو طلبہ و طالبات کے لیے پریشان کن ہے۔ ہم دوسری تنظیموں سے مل کر اس احتجاجی مہم کو پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ طلباء کو حفاظت مل سکے۔ حکومت ان معاملات کی شفاف تحقیقات کروائے اور طلبہ یونینز پر پابندی ختم کرے۔‘‘
خلق یوتھ فرنٹ نامی تنظیم سے تعلق رکھنے والے ایک طالب علم رہنما حارث حسن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ طلبہ کو حکومت کی تحقیقات پر کوئی اعتبار نہیں ہے: ''اس نے شفاف تحقیقات کی بجائے پنجاب کالج کو بچانے کے لیے کام کیا ہے حکومت جتنی پھرتیاں سوشل میڈیا استعمال کرنے والوں کے خلاف دکھا رہی ہے اگر اتنی محنت اس کیس کی تحقیقات میں کرتی تو حقائق سامنے آ جاتے۔ ‘‘
اسلامی جمیعت طلبہ جنوبی پنجاب کے ناظم ابو ذر غفاری کے مطابق، ''احتجاج طلبہ کا حق ہے لیکن ہم انہیں اشتعال انگیزی سے باز رکھ کر پر امن رکھنے کی کوشش کر رہے ہیں اور گرفتار طلبہ کو قانونی امداد بھی فراہم کر رہے ہیں۔ ‘‘
ان کے خیال میں ملک کی حالیہ تاریخ میں ایسا پہلی بار دیکھا گیا ہے کہ کسی ایک واقعے پر طلبہ نے اتنا بڑا احتجاج کیا ہے۔