1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پولینڈ: بچوں سے جنسی زیادتیاں، کیتھولک چرچ کی معذرت

مقبول ملک21 جون 2014

یورپی ملک پولینڈ کے طاقتور کیتھولک چرچ نے کلیسائی اہلکاروں کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتی کے واقعات پر ایک بڑی تقریب میں کھل کر معافی مانگ لی۔ یہ معافی ایسے جرائم کی روک تھام کے موضوع پر ایک کانفرنس کے موقع پر مانگی گئی۔

https://p.dw.com/p/1CNPG
تصویر: picture alliance/blickwinkel/McPhoto

پولینڈ کے جنوبی شہر کراکاؤ میں منعقدہ ایک غیر معمولی تقریب میں اس معذرت کے موقع پر پولستانی کلیسا کے کئی اعلیٰ ترین اہلکار اور ماضی میں مذہبی شخصیات کے ہاتھوں جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے بہت سے افراد بھی موجود تھے۔ اس موقع پر تقریب کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے بشپ Piotr Libera نے کہا، ’’احساس جرم پر افسردگی اور شرمندگی کے ساتھ ہم خدا سے اور پادریوں کی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے افراد سے معافی کی درخواست کرتے ہیں۔‘‘

کراکاؤ سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق Jesuit پادری پرُوساک نے اس موقع پر نیوز ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ زیادہ تر کیتھولک مسیحی آبادی والے ملک پولینڈ میں کلیسائی رہنما ماضی میں مختلف پریس کانفرنسوں میں بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات پر معذرت کر چکے ہیں تاہم ایسی کسی سنجیدہ مذہبی تقریب میں اور اس طرح کلیسا کی طرف سے پہلے کبھی معافی نہیں مانگی گئی تھی۔

پولینڈ میں کلیسائی شخصیات کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات طویل عرصے تک ایک ممنوعہ موضوع رہے ہیں۔ اس حوالے سے باقاعدہ معافی جس تقریب میں مانگی گئی، وہ ایک ایسی دو روزہ کانفرنس کا حصہ تھی، جس کا مقصد کلیسائی شخصیات کی طرف سے جنسی زیادتیوں کے واقعات کی روک تھام تھا۔ اس کانفرنس میں ایسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے کئی متاثرین کے ساتھ ساتھ بیرون ملک سے متعدد ماہرین بھی شریک ہوئے۔

Katholische Arbeitnehmer-Bewegung Symbolbild Messe
تصویر: picture-alliance/dpa

پولستانی بشپس کانفرنس کے نوجوانوں سے متعلقہ امور کے کوآرڈینیٹر فادر ایڈم زاک نے اس موقع پر کہا کہ کلیسائی شخصیات کی طرف سے بچوں سے جنسی زیادتیوں کے واقعات پر معذرت اور ان کے تدارک کی کوششوں کے حوالے سے امریکا اور آئرلینڈ کے مقابلے میں پولینڈ ابھی ’اپنے راستے کے شروع میں‘ ہے۔

پولینڈ کے چرچ میں بہت سرکردہ شخصیات کے حوالے سے گزشتہ مہینوں کے دوران کئی ایسے واقعات سامنے آئے تھے، جنہوں نے پولستانی قوم کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انہی میں سے ایک واقعہ آرچ بشپ جوزف ویسولوفسکی کی ذات سے متعلق تھا۔ ان پر الزام ہے کہ ڈومینیکن ریپبلک میں پاپائے روم کے مندوب کے طور پر فرائض کی انجام دہی کے دوران وہ لڑکوں کے ساتھ جنسی رابطوں کے مرتکب ہوئے تھے۔

پولستانی کلیسا کی قیادت یہ فیصلہ کر چکی ہے کہ وہ ماضی میں ایسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے افراد کو مالی ازالے کے طور پر کوئی رقوم ادا نہیں کرے گی، چاہے اسے ایسی ادائیگیوں کے لیے سول مقدمات کا سامنا ہی کیوں نہ کرنا پڑے۔ اسی دوران لیکن پولش چرچ کے خلاف ایسا پہلا مقدمہ دائر بھی کیا جا چکا ہے۔

یہ سول مقدمہ ایک ایسے 25 سالہ شخص نے دائر کیا ہے جسے کم عمری میں جنسی بدسلوکی کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ Marcin K نامی اس شخص نے ازالے کے طور پر دو لاکھ زلوٹی یا قریب 65 ہزار امریکی ڈالر کے برابر ادائیگی کا مطالبہ کیا ہے۔ کلیسائی شخصیات کی طرف سے جنسی زیادتیوں کا نشانہ بننے والے متاثرین کی فاؤنڈیشن کے سربراہ ماریک لیسِنسکی کا کہنا ہے، ’’یہ اپنی نوعیت کا پہلا سول مقدمہ ہے۔ ایسے مزید کئی مقدمے دائر کیے جائیں گے۔‘‘