پولینڈ، چیک جمہوریہ اور ہنگری کی نیٹو میں رکنیت کے دس سال
12 مارچ 2009پولینڈ، چیک جمہوریہ اور ہنگری کی نیٹو میں شمولیت اس لئے بھی اہم ہے کہ یہ ممالک وارساؤ پیکٹ کے رکن بھی رہ چکے ہیں۔ اس تنظیم کی بنیاد 1955 میں سوویت یونین نے رکھی تھی جس کا مقصد نیٹو کے خلاف ایک اتحاد تشکیل دینا تھا۔ تاہم 1991 میں یوایس ایس آر کے ٹوٹنے پر یہ اتحاد بھی ختم ہو گیا۔
چیک جمہوریہ
یہ یورپی یونین کا موجودہ صدر ہے۔ اس کا قیام 1993 میں عمل میں آیا۔ اس وقت تک یہ چیکوسلواکیہ کا حصہ تھا۔ اس خطے میں 1940 کی دہائی کے اوآخر تک کمیونسٹ دور حکومت رہا۔
Vaclav Klaus چیک جمہوریہ کے صدر ہیں۔ ان کا تعلق سوک ڈیموکریٹک پارٹی سے ہے۔ یہ ان کی صدارتی مدت کا دوسرا دور ہے۔ وہ پہلی مرتبہ 2003 میں صدر بنے تھے۔ انہیں ملک میں اقتصادی اصلاحات کا محرک مانا جاتا ہے۔ وہ 1990 کی دہائی میں وزیر اعظم کے عہدے پر بھی رہ چکے ہیں۔ موجودہ وزیر اعظم Mirek Topolanek ہیں۔
چیک جمہوریہ کی مجموعی آبادی10 ملین سے زائد ہے۔ دارالحکومت پراگ جبکہ اس کا رقبہ 78 ہزار 866 مربع اسکوائر کلومیٹر ہے۔
ہنگری
یہ یورپی ملک سلطنت عثمانیہ اور ہاپسبرگ کا حصہ رہ چکا ہے۔ پہلی عالمی جنگ کے خاتمے پر وہاں آزاد بادشاہت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد وسطی یورپی یہ ملک کمیونسٹ حکمرانی میں آگیا۔ تاہم 1989 میں آسٹریا کے ساتھ سرحد کھول کر اس نے مشرقی یورپ میں کمیونزم کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ اس اقدام سے مشرقی جرمنی کے ہزاروں باشندوں کو مغربی جرمنی میں داخل ہونے کا موقع ملا۔ Laszlo Solyom ہنگری کے صدر ہیں۔
جمہوریہ ہنگری کی آبادی 10 ملین ہے۔ دارالحکومت بداپیسٹ جبکہ اس کا رقبہ 93 ہزار 30 مربع اسکوئر کلومیٹر ہے۔
پولینڈ
اس کی تاریخ ایک ہزار سال پر مشتمل ہے۔ اس دوران یہ کئی دوسرے ممالک کے زیر انتظام بھی رہا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے دوران وہاں لاکھوں افراد ہلاک ہوئے جن میں نصف یہودی تھے۔
2004 میں اسے یورپی یونین کی رکنیت ملی تو وہاں کمیونسٹ دور کا خاتمہ ہوئے پندرہ برس بیت چکے تھے۔
سابق سوویت بلاک میں آزادی کے لئے سیاسی تحریک کا آغاز پولینڈ سے ہوا تھا جبکہ 1980 کی دہائی میں ویٹی کن میں پولش پاپائےا عظم کی موجودگی کا سولے ڈیرٹی موومنٹ پر اہم اثر رہا اور آج بھی پولینڈ میں رومن کیتھولک چرچ کی جڑیں انتہائی مضبوط ہیں۔
امریکہ نے عراق پر حملہ کیا تو پولینڈ بھی اس میں شریک تھا۔ اس کی سربراہی میں ایک بین الاقوامی فورس نے جنوب وسطی عراق میں ستمبر 2003 میں امن مشن کی ذمے داری سنبھالی۔ اس مشن میں ڈھائی ہزار فوجی پولینڈ کے تھے۔
Lech Kaczynski صدر ہیں اور Donald Tusk وزیر اعظم ہیں۔ جمہوریہ پولینڈ کی آبادی اڑتیس ملین ہے۔ دارالحکومت واساؤ اور اس کا رقبہ تین لاکھ 12 ہزار 665 مربع اسکوائر کلومیٹر ہے۔
نیٹو کیا ہے؟
نارتھ اٹلانٹک ٹریٹی آرگنائزیشن یا نیٹو چھبیس ممالک پر مشتمل مغربی دفاعی اتحاد ہے۔ اس کا قیام 1949 میں عمل میں آیا۔ اس کا مقصد دوسری عالمی جنگ کے بعد کمیونزم کے بڑھتے ہوئے اثرات کا مقابلہ کرنا تھا۔ اس عرصے میں سوویت یونین اپنا اثرورسوخ یورپ تک بڑھانے کی تگ و دو میں مصروف تھا۔
اس مغربی دفاعی اتحاد کو دُنیا کا طاقتور ترین علاقائی دفاعی اتحاد تصور کیا جاتا ہے۔ نیٹو کے مطابق اس کا مقصد رکن ممالک کی آزادی، مشترکہ ورثے اور تہذیب کا تحفظ کرنا ہے۔
رکن ممالک کے درمیان یہ اتفاق رائے ہے کہ کسی ایک پر بھی حملہ ہوا تو سب پر حملہ تصور کیا جائے گا اورسب متحد ہو کر ایک دوسرے کا تحفظ کریں گے۔
ابتدا میں نیٹو کے رکن ممالک کی تعداد بارہ تھی۔ تاہم 1952 میں یونان اور ترکی کو بھی اس میں شامل کر لیا گیا۔ 1955 میں اس وقت کا مغربی جرمنی نیٹو کا رکن بنا۔
2004 میں سابق سوویت یونین کا حصہ رہنے والے ممالک ایسٹونیا، لیٹویا اور لیتھونیا کو بھی نیٹو کی رکنیت دے دی گئی جبکہ ان کے ساتھ ہی سلووینیا، سلوویکیا، بلغاریہ اور رومانیہ بھی نیٹو کے رکن بن گئے۔
بوسنیا، مونٹینگیرو اور سربیا کی رکنیت کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے جبکہ جارجیا اور یوکرائن کو نیٹو میں شامل کرنے کا فیصلہ رواں برس دسمبر میں ہوگا۔
روس کو نیٹو پر تحفظات رہے ہیں جس کے لئے نیٹو روس پرمنینٹ جوائنٹ کونسل مئی 1997 میں قائم کی گئی جس کے تحت روس کو باہمی دلچسپی کے امور میں مذاکرات میں شریک کیا جاتا ہے۔
نیٹو کے دیگر رکن ممالک میں بیلجیئم، کینیڈا، ڈنمارک، فرانس، آئس لینڈ، اٹلی، لکسمبرگ، نیدرلینڈز، ناروے، ، پرتگال، رومانیہ، اسپین، برطانیہ اور امریکہ شامل ہیں۔