پونٹنگ نہیں کلارک چاہیے
7 جنوری 2009گزُ شتہ تقریباً سترہ برسوں سے دنیاء کرکٹ پرحکمرانی، 1999، 2003 اور 2007 کے عالمی کرکٹ کپ ٹورنامنٹس کی فاتح، اور ٹیسٹ کرکٹ میں اپنی سرزمین پر سولہ سیزنز تک تقریباً ناقابل شکست سمجھے جانے والی ٹیم آسٹریلیا سے دوسری ٹیموں کو اب خوف محسوس نہیں ہوتا۔
بھارتی کرکٹ ٹیم نے بھارت میں آسٹریلیا کو ٹیسٹ سیریز میں شکست دی اور اب گریم سمتھ کی قیادت میں جنوبی افریقہ نے آسٹریلیا کو ہوم سیریز میں بھی ہرادیا۔
مسلسل دو ٹیسٹ سیریز میں شکست، کیا یہ صورتحال آسٹریلیا کی فارم میں ایک عارضی ٹھہراٴو ہے یا پھر بات بہت آگے نکل چکی ہے؟
اس ٹیم میں اب شہرہء آفاق لیگ اسپنر شین وارن نہیں، بیٹسمین کو لگاتار پریشانی میں مبتلا کرنے والے گلین میک گراتھ نہیں، جیسن گلیسپی کے روپ میں مناسب بولنگ بیک اَپ نہیں، ایڈم گلکرسٹ کی وکٹ کیپنگ اور بیٹنگ نہیں، سٹیون وا کی کپتانی نہیں، اور مڈل آرڈر میں ڈیمین مارٹن بھی نہیں۔ دنیاء کرکٹ میں ان کھلاڑیوں نے اتنے بڑے کارنامے سرانجام دئے ہیں جن کو مثالوں سے واضح کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
کیا ان کھلاڑیوں کی غیر موجودگی میں آسٹریلیا کی ٹیم کی کارکردگی واقعی متاثر ہوئی ہے یا پھر بات کچھ اور بھی ہے؟
کہیں ایسا تو نہیں کہ جنوبی افریقہ اور بھارت جیسی ٹیمیں آسٹریلیا کے کھیل کے انداز کو سمجھ چکی ہیں، اور یہ کہ ان دونوں ہی ٹیموں کی کارکردگی میں مسلسل بہتری آرہی ہے جس کے نتیجے میں مقابلے پہلے جیسے یکطرفہ نظر نہیں آتے؟ 2008 ء میں آسٹریلیا کو پانچ ٹیسٹ میچوں میں شکست کا سامنا کرنا پڑا۔
کرکٹ ماہرین کے خیال میں آسٹریلیا کے پاس میتھیو ہیڈن اور اینڈریو سائمنڈز جیسے کھلاڑی ہیں، جن کی کارکردگی عمرکے ساتھ ساتھ ناقص ہوتی جارہی ہے۔ بریٹ لی جیسے بولر کے ہونے کے باوجود میک گراتھ کی ایکوریسی کی شدت سے کمی محسوس کی جارہی ہے۔ اور اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ کہ اب اس ٹیم کے پاس شین وارن یا میک گل جیسے اسپن بولر بھی نہیں جو اپنے بل بوتے پر ٹیسٹ میچ میں فتح دلانے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
بعض ماہرین آسٹریلوی کپتان رکی پونٹنگ کی قیادت پر بھی سوالیہ نشان لگارہے ہیں۔ پانٹنگ ایک عظیم بیٹسمین ہیں، اس بات پر کسی کو کوئی شک نہیں لیکن کیا وہ جتنے اچھے بیسٹمین ہیں اُتنے ہی اچھے لیڈر بھی ہیں، اس پر بحث جاری ہے۔
آسٹریلیا کے سابق کپتانوں ایلن بارڈر، مارک ٹیلراور سٹیون وا کو اُن کی لیڈرشپ کے لئے پوری دنیا میں جانا پہچانا جاتا ہے۔ ٹیم کو جب بھی بحرانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا، تب تب سٹیون وا ایک یادگار اننگز کھیل کر میچ جتوانے میں کامیاب ہوجاتے تھے۔
کرکٹ آسٹریلیا کی ایک خاص بات یہ بھی رہی ہے کہ اکثر ٹیم کے بہترین کھلاڑی کو کپتان بنایا جاتا رہا ہے، ایلن بورڈر، مارک ٹیلر اور سٹیون وا کی مثالیں ہمارے سامنے موجود ہیں۔ لیکن رکی پانٹنگ میں شاید وہ بات نہیں ہے۔
2005ء کی ایشز سیریز میں انگلینڈ کے اُس وقت کے کپتان مائیکل وان نے رکی پانٹنگ پر لیڈرشپ کے حوالے سے پوری طرح سے سبقت حاصل کی۔ ابھی حال ہی میں بھارتی کپتان مہیندر سنگھ دھونی اور اب جنوبی افریقی کپتان گریم سمتھ بھی پانٹنگ پر حاوی ثابت ہوئے ہیں۔
پرتھ ٹیسٹ میں جنوبی افریقہ نے 414 رنوں کے ہدف کا کامیابی سے تعاقب کیا اور میلبورن میں بھی جنوبی افریقہ نے شاندار طریقے سے آسٹریلیا کو شکست سے دوچار کیا۔
جنوبی افریقہ کے ہاتھوں اپنی ہی سرزمین پر ٹیسٹ سیریز میں شکست سے دوچار ہونے والی ٹیم آسٹریلیا اب جنوبی افریقہ کا دورہ کرنے والی ہے، اور پھر ٹوئنٹی ٹوئنٹی عالمی کپ میں شرکت کے بعد آسٹریلیا کو انگلینڈ کے دورے پر ایشز کا دفاع کرنا ہوگا۔
کیا اب وہ وقت آچکا ہے جب آسٹریلیا کو ایک بار پھر اپنی روایت کے عین مطابق ٹیم کے بہترین کھلاڑی کو کپتانی کے عہدے پر فائز کرنا چاہیے؟ مڈل آرڈر بیٹسمین مائیکل کلارک ٹیم کی قیادت کرنے کے لئے پوری طرح سے تیار نظر آرہے ہیں۔