پوپ واپسی میں ہماری مدد کریں، روہنگیا مہاجرین کی اپیل
30 نومبر 2017روہنگیا مہاجرین کی جانب سے پوپ فرانسس سے اپیل کی گئی ہے کہ وہ اُن کو میانمار میں آزادانہ زندگی بسر کرنے میں مدد کریں۔ اس اپیل میں یہ بھی کہا گیا کہ روہنگیا میانمار میں واپس اپنے گھروں میں جانے کے متمنی ہیں اور بطور شناخت کے انہیں روہنگیا تسلیم کیا جائے۔
دوسری جانب میانمار کے دورے کے دوران پوپ نے ایک مرتبہ بھی روہنگیا مسلمانوں کے بحران کا ذکر نہیں کیا۔ انہوں نے میانمار کی نوبل انعام یافتہ خاتون سیاستدان آنگ سان سوچی کے ساتھ ملاقات میں بھی داخلی بحرانوں اور معاشرتی تقسیم کا ذکر کرتے ہوئے روہنگیا مہاجرین کے الفاظ استعمال کرنے سے بھی گریز کیا تھا۔ کئی حلقوں کا خیال ہے کہ ایسے کرنے میں پوپ کو میانمار سے تعلق رکھنے والے کیتھولک کارڈینل چارلس ماؤنگ بو کی مشورت یاد رہی ہو گی۔
میانمار میں خطاب، پوپ فرانسس نے روہنگیا کا حوالہ نہ دیا
بدھ قوم پرستی کی آگ میں جلتا میانمار اور پوپ کا دورہ
پوپ فرانسِس میانمار کے اولین دورے پر
اس حوالے سے ویٹیکن کا کہنا ہے کہ پاپائے روم کا مقصد اقوام کے درمیان رابطوں کے پل استوار کرنا ہے نا کہ بحرانی موضوعات کو چھیڑ کر اختلافات بڑھانا۔ اس تناظر میں میانمار کی کیتھولک مسیحی اقلیت کے خدشات بھی تھے کہ روہنگیا مہاجرین کے ذکر سے انہیں بھی بدھ اکثریتی آبادی کے ممکنہ رد عمل کا سامنا ہو سکتا ہے۔
پوپ فرانسس کے بنگلہ دیشی دورے کی ابتدائی تفصیلات میں ان کے کوکس بازار میں واقع مہاجر کیمپ کے دورے کو شامل نہیں کیا گیا ہے۔ روہنگیا مہاجرین کی مددگار غیر سرکاری تنظیموں کی جانب سے ایسے اشارے سامنے آئے ہیں کہ پوپ مہاجرین کے کیمپ کے دورے سے عالمی حلقے کو حیران کر سکتے ہیں۔
اسی مناسبت سے کوکس بازار میں سرگرم کئی دوسری بین الاقوامی غیر سرکاری تنظیمیں پوپ فرانسس کے روہنگیا مہاجرین کے کیمپ کے دورے کے حوالے سے کسی قسم کی کوئی بات یا تبصرہ نہ کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان تنظیموں کے مطابق پوپ کا دورہ ایک سیاسی معاملہ ہے۔ ڈھاکا میں حکومتی حلقے بھی اس مناسبت سے کوئی واضح اور صحیح صورت حال بیان کرنے سے قاصر ہیں۔
بنگلہ دیش میں روہنگیا مہاجرین کی ایک بڑی تعداد بظاہر پوپ فرانسس کی وقعت اور حیثیت سے بےخبر دکھائی دیتے ہیں اور اس کی ایک بڑی وجہ اُن کی عالمی حالات و واقعات سے دوری اور اپنی زندگیوں کو محفوظ بنانے میں بسر رہی ہے۔
بنگلہ دیش کی 160 ملین سے زائد آبادی میں مسیحی آبادی کا تناسب ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ پہلی دسمبر کو ڈھاکا میں پوپ کی قیادت میں منعقد ہونے والی دعائیہ تقریب میں اسی ہزار کیتھولک مسیحیوں کی شرکت متوقع ہے۔