پوپ کی شفقت، مہاجر بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ لوٹ آئی
12 اگست 2016ويٹيکن سٹی ميں موسم گرما کی ايک شام سات شامی مہاجر بچوں کو کيتھولک مسيحيوں کے روحانی پيشوا پوپ فرانسس کے ساتھ ہنستے کھيلتے ديکھا جا سکتا ہے۔ ان بچوں کی ميزبان سينٹ ايگیڈیو کی مذہبی برادری سے وابستہ ڈانیئلا پومپے بتاتی ہيں، ’’يہ دل کو چُھو لينے والا ايک لمحہ تھا، کسی خاندان کے ارکان کے ایک دوسرے کے قريب آنے کا لمحہ۔ بچوں نے اطالوی زبان ميں بات چيت کی اور پوپ فرانسس کو بتايا کہ وہ کہاں کہاں سے ہيں، اُن کے ممالک ميں کيا ہو رہا ہے، اُن کے شہر کيسے تھے اور يہ بھی کہ اب وہ اطالوی دارالحکومت روم ميں کيا کر رہے ہيں۔‘‘ پومپے کے بقول بچوں نے پوپ کا شکريہ بھی ادا کيا کيونکہ انہوں نے ان کی جانيں بچائی ہيں۔ کچھ دير گزرنے کے بعد تمام بچے پوپ کی موجودگی ميں زيادہ پر اعتماد ہوتے گئے او پھر انہوں نے پاپائے روم فرانسس کے ساتھ کھيلنا، ہنسی مذاق کرنا اور انہيں لطيفے سنانا شروع کر ديے۔
دراصل يہ سات بچے وہی شامی مہاجر بچے ہيں، جنہيں پاپائے روم رواں سال اپريل ميں اپنے دورہ يونان کے دوران سياسی پناہ کے ليے اپنے ساتھ واپس ويٹيکن لے آئے تھے۔ يہ بچے مجموعی طور پر ان اکيس نابالغ پناہ گزینوں کے گروپ کا حصہ ہيں، جنہوں نے پاپائے روم کی وجہ سے اطالوی دارالحکومت میں اپنی نئی زندگی کا آغاز کيا۔ يہ بچے اپريل اور جون کے دوران ويٹيکن پہنچے تھے۔ بارہ بچوں کے ايک گروپ کو پوپ دورہ يونان سے ساتھ لے کر آئے تھے اور ان کے اس اقدام کا مقصد يورپی ساحلوں پر پہنچنے والے ہزاروں پناہ گزينوں کی حالت زار کی طرف توجہ دلانا تھا۔ بعد ازاں مزید نو بچوں کو جون ميں اٹلی لايا گيا اور وہ بھی بحيرہ ايجيئن کا خطرناک سفر طے کرنے کے بعد ايک يونانی جزيرے پر رہائش پذير تھے۔
پاپائے روم کئی یورپی ریاستوں کی طرف سے مہاجرين کے ساتھ متنازعہ رويہ اختيار کرنے پر متعدد مواقع پر ایسے مغربی ملکوں پر کافی سخت تنقيد کرتے رہے ہيں۔ انہوں نے اکثريتی طور پر مسلمان آبادی والے ممالک سے آنے والے ان پناہ گزينوں کے حقوق اور ان کے ساتھ بہتر سلوک کے ليے کئی مرتبہ آواز بلند کی ہے۔
سن 2015 کے دوران مشرق وسطیٰ، شمالی افريقہ اور ايشيا کے چند ممالک سے ايک ملين سے زائد مہاجرين نے سياسی پناہ کے ليے يورپ کا رخ کيا۔ اس سال مارچ ميں ترکی اور يورپی يونين کے درميان طے پانے والے ايک متنازعہ معاہدے کےبعد البتہ يورپ پہنچنے والے مہاجرين کی تعداد ميں نماياں کمی رونما ہوئی ہے۔