پہلی خاتون نائب صدر: کملا ہیرس کس کس حوالے سے تاریخ ساز
8 نومبر 2020کملا ہیرس نے اپنی اب تک کی سیاسی زندگی میں اتنے زیادہ کام پہلی مرتبہ کیے ہیں کہ اب کئی ماہرین ان کے بارے میں یہ بھی سوچنے لگے ہیں کہ آیا وہ مستقبل میں امریکا کی پہلی خاتون صدر بھی بن جائیں گی۔ واشنگٹن سے اینس پوہل کا تحریر کردہ کملا ہیرس کی شخصیت کا ایک خاکہ:
آج سے زیادہ سے زیادہ 25 برس بعد امریکا میں سفید فام شہری اکثریت میں نہیں رہیں گے۔ ایسے امریکی ووٹروں کی تعداد اب مسلسل زیادہ سے زیادہ ہوتی جا رہی ہے، جن کی نسلی طور پر جڑیں مختلف یورپی معاشروں میں نہیں بلکہ ایشیا اور افریقہ کے مختلف ممالک سے جڑی ہوئی ہیں۔
دنیا میں امریکا کی عزت کی بحالی کا وقت آ گیا ہے، جو بائیڈن
کئی سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ڈیموکریٹ صدارتی امیدوار کے طور پر جب جو بائیڈن نے نائب صدر کے عہدے کے لیے کملا ہیرس کا انتخاب کیا، تو وہ یہ اشارہ دینا چاہتے تھے کہ وہ یہ اچھی طرح سمجھتے ہیں کہ امریکا میں آئندہ برسوں اور عشروں میں داخلی سماجی اور معاشرتی حوالوں سے کیا کیا تبدیلیاں آنے والی ہیں۔
کملا ہیرس کی بھارتی نژاد والدہ
کملا ہیرس کی والدہ شیاملا گوپالن 1960ء میں بھارت سے ترک وطن کر کے امریکا آئی تھیں۔ وہ چھاتی کے سرطان پر تحقیق کرنے والی ایک میڈیکل ریسرچر تھیں۔ کملا کے والد ڈونلڈ ہیرس اقتصادیات کے پروفیسر تھے، جو جمیکا سے ترک وطن کر کے امریکا میں آباد ہوئے تھے۔
کملا ابھی سات برس کی تھیں کہ ان کے والدین میں علیحدگی ہو گئی تھی۔ پھر کملا اور ان کی بہن مایا کی پرورش ان کی والدہ نے کی اور جب وہ طبی تحقیق کے لیے کینیڈا کے شہر مانٹریال منتقل ہو گئیں، تو کملا اور مایا بھی ان کے ساتھ ہی مانٹریال چلی گئی تھیں۔
پیدائش کیلی فورنیا میں
کملا ہیرس کی پیدائش امریکی ریاست کیلی فورنیا کے شہر اوک لینڈ میں ہوئی تھی اور اسی شہر نے بلوغت کے بعد ان کی اور ان کے خاندان کی زندگی میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہ بھی ریاست کیلی فورنیا میں ہی ہوا تھا کہ 1970 کے عشرے کے دوران ایک نوجوان لڑکی کے طور پر کملا ہیرس کو یہ تجربہ بھی ہوا کہ اگر کسی کی رنگت سفید نہ ہو تو اس دور کے امریکا میں کسی بھی نواجوان کو کس طرح کے سماجی حالات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔
امریکی صدارتی الیکشن بالآخر جو بائیڈن نے ’جیت‘ لیا
کملا ہیرس نے اپنی ایک سوانح بھی لکھی ہے، جس کا عنوان ہے: The Truths We Hold۔ اس کتاب میں وہ لکھتی ہیں کہ انہوں نے برکلے یونیورسٹی میں ہی امریکا میں شہری آزادیوں کی تحریک میں حصہ لینا شروع کر دیا تھا۔ وہ لکھتی ہیں، ''ہماری والدہ نے ہمیں مضبوط خواتین بنایا۔ وہ کہتی تھیں کہ ادھر ادھر بیٹھی شکایتیں مت کیا کرو۔ کچھ کرو بھی۔‘‘
سیاسیات اور قانون کی تعلیم
کملا ہیرس نے پہلے واشنگٹن سے سیاسیات کی تعلیم حاصل کی اور پھر سان فرانسسکو میں انہوں نے قانون کی تعلیم حاصل کی۔ انہوں نے اسٹیٹ اٹارنی کے طور پر اپنے کیریئر کا آغاز 1990ء میں کیا تھا اور جلد ہی اپنی صلاحیتوں کا لوہا بھی منوا لیا تھا۔
2010ء میں کملا ہیرس نے ریاست کیلی فورنیا میں اٹارنی جنرل کے عہدے کے لیے اپنی امیدواری ظاہر کی، تو چھ دیگر امیدواروں کے مقابلے میں کامیابی انہیں ہی ملی۔ امریکا میں یہ عہدہ اٹارنی جنرل کے عہدے کے علاوہ وزیر انصاف کے عہدے کے برابر بھی ہوتا ہے اور کملا ہیرس نے کیلی فورنیا کی وزیر انصاف کے طور پر اپنے عہدے کا حلف تین جنوری 2011ء کو اٹھایا تھا۔
یہودی وکیل ڈگلس ایمہوف سے شادی
کملا ہیرس 2014ء سے شادی شدہ ہیں اور ان کے شوہر کا نام ڈگلس ایمہوف ہے، جو ایک یہودی ماہر قانون ہیں۔ کملا ہیرس کا نام کئی مرتبہ ڈیموکریٹک پارٹی کی صدارتی عہدے کے لیے ممکنہ خاتون امیدوار کے طور پر بھی لیا گیا تھا۔
امریکی انتخابات: ٹرمپ اپنی کامیابی پر مُصر
2019ء میں جب حالیہ صدارتی الیکشن کے لیے ڈیموکریٹک پارٹی کو اپنا امیدوار چننا تھا، تو جو بائیڈن، برنی سینڈرز اور الزبتھ وارین جیسے چند بڑے بڑے ناموں کے ساتھ ممکنہ شخصیات کی فہرست میں ایک بہت اہم نام کملا ہیرس کا بھی تھا۔ پھر جب جو بائیڈن صدارتی امیدوار بنے، تو انہوں نے اپنے ساتھ نائب صدارتی امیدوار کے طور پر کملا ہیرس کا انتخاب کیا۔
ایک الیکشن میں کئی منفرد اعزازات
جوبائیڈن کے صدر منتخب ہونے کے ساتھ ہی کملا ہیرس کا امریکا کی آئندہ نائب صدر بننا بھی یقینی ہو گیا ہے۔ وہ امریکا کی پہلی خاتون نائب صدر ہوں گی، پہلی غیر سفید فام نائب صدر بھی، اور پہلی بھارتی نژاد امریکی نائب صدر بھی۔
جو بائیڈن کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
اگلے برس جنوری میں جو بائیڈن جب صدر کے طور پر اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے، تو ان کی عمر 78 برس ہو گی۔ آج تک امریکا میں کوئی بھی سیاستدان ایسا نہیں گزرا، جس کی ملکی صدر بنتے وقت عمر اتنی زیادہ رہی ہو۔ یہ ممکن ہے کہ جو بائیڈن اپنی عمر کی وجہ سے آخر تک اپنے چار سالہ فرائض منصبی انجام نہ دیں سکیں۔
ایسی صورت میں کملا ہیرس بغیر نئے عام انتخابات کے خود بخود امریکا کی پہلی خاتون صدر بھی بن سکتی ہیں۔ اگر ایسا ہوا، تو یہ بھی پہلی مرتبہ ہو گا کہ امریکی صدر کوئی مرد نہیں بلکہ ایک خاتون ہو گی اور وہ خاتون کملا ہیرس ہوں گی۔
اینس پوہل (م م / ا ا)