پیرس حملے: دہشت گرد کہاں کہاں سےکیسے بچ نکلے تھے؟
22 نومبر 2015پیرس سے اتوار بائیس نومبر کو موصولہ نیوز ایجنسی روئٹرز کے ایک بہت تفصیلی مراسلے میں وقت، تاریخ اور مقامات کا ذکر کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ کم از کم 130 افراد کی ہلاکت کا سبب بننے والے اور کئی اہداف پر تقریباﹰ بیک وقت کیے جانے والے ان حملوں میں ملوث عسکریت پسندوں کو یورپی ریاستوں کے حکام کہاں کہاں اور کن حقائق کی بنیاد پر روک سکتے یا گرفتار کر سکتے تھے لیکن ایسا نہ ہوا اور یہ شدت پسند بار بار بچ نکلنے میں کامیاب رہے۔
ان غلطیوں کی چند مثالیں:
۔ ان شدت پسندوں میں سے ایک کو، جس نے پیرس میں خود کش بم حملہ کیا، اس سال جنوری میں ترکی کی ایک سرحد پر حکام نے روک کر ملک بدر کرتے ہوئے واپس بیلجیم بھیج دیا تھا۔ یہ عسکریت پسند، جس کا نام براہیم عبدالسلام تھا، تب تک شدت پسندی کا قائل ہو چکا تھا اور ترک حکام نے یہ بات بیلجیم کے حکام کو بتائی بھی تھی۔ براہیم عبدالسلام صالح عبدالسلام نامی اس مشتبہ ملزم کا بھائی تھا، جسے بیلجیم کی پولیس ابھی تک تلاش کر رہی ہے اور جو پیرس میں حملوں کے بعد واپس برسلز فرار ہو گیا تھا۔ تب بیلجیم کی پولیس نے پوچھ گچھ کے بعد براہیم کو چھوڑ دیا تھا۔
۔ صالح عبدالسلام جب پیرس میں دہشت گردی کے بعد واپس بیلجیم لوٹ رہا تھا تو پولیس نے ایک شاہراہ پر اسے روکا بھی تھا، جب وہ ایک گاڑی میں سوار تھا۔ تب اس کی شناختی دستاویزات دیکھ کر تسلی ہو جانے کے بعد اسے جانے دیا گیا تھا۔
۔ پیرس حملوں کے دوران باٹاکلاں کنسرٹ ہال میں خود کش حملہ کرنے والے شدت پسند کا نام اسماعیل عمر مصطفائی تھا، جو نسلی طور پر الجزائر سے تعلق رکھنے والا ایک فرانسیسی شہری تھا۔ پولیس ذرائع کے بقول مصطفائی کا نام 2010ء سے فرانسیسی پولیس کی تیار کردہ ایسے افراد کی فہرست میں شامل تھا، جنہیں قومی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھا جاتا ہے۔ ترک پولیس مصطفائی کو بھی مشتبہ دہشت گرد سمجھتی تھی اور اس نے دسمبر 2014ء میں پیرس میں حکام کو تحریری طور پر آگاہ کر دیا تھا کہ اس عسکریت پسند کا تعلق اسلامک اسٹیٹ یا داعش سے تھا۔ ترک پولیس کی اس تنبیہ کا جواب فرانسیسی اہلکاروں نے گزشتہ ہفتے دیا، پیرس حملوں کے بعد۔
۔ پیرس حملوں ہی میں ملوث ایک عسکریت پسند ایسا بھی تھا، جسے 2013ء میں ہر ہفتے فرانسیسی پولیس کے سامنے پیش ہونا تھا لیکن تب وہ مسلسل چار ہفتوں تک پولیس کے سامنے پیش نہیں ہوا تھا۔ اس کے بعد اس کے وارنٹ گرفتاری جاری کر دیے گئے تھے لیکن تب تک وہ فرانس سے بیرون ملک جا چکا تھا۔
روئٹرز کے مطابق بہت سے واقعات میں سے ان محض چند مثالوں سے ہی ظاہر ہو جاتا ہے کہ یورپی ملکوں کے قومی پولیس محکمے، سکیورٹی سروسز یا انٹیلیجنس ادارے ان جملہ مواقع میں سے چند ایک کو بروئے کار لاتے ہوئے پیرس میں دہشت گردانہ حملوں کے کم از کم چند ملزمان کو گرفتار تو کر ہی سکتے تھے۔
لیکن ان سب واقعات میں دولت اسلامیہ کی عسکریت پسندی کے قائل یہ شدت پسند قانون کی گرفت میں آنے سے بچتے رہے اور یہی اس تلخ حقیقت کی وجہ ہے کہ یورپی یونین کے شہری ہونے اور قومی سرحدوں کے آر پار آزادانہ نقل و حرکت کی سہولت سے فائدہ اٹھاتے ہوئے یہ دہشت گرد پیرس حملوں کی منصوبہ بندی اور اس منصوبہ بندی پر عمل درآمد میں کامیاب رہے۔