1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پیرو میں ہلاکت خیز مظاہروں کے بعد 'نسل کشی' کی تحقیقات شروع

11 جنوری 2023

پیرو میں دسمبر کے اوائل سے جاری پرتشدد جھڑپوں میں درجنوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں۔ استغاثہ نے اعلان کیا ہے کہ مہلک ترین احتجاج کے ایک دن بعد وہ اپنی تحقیقات شروع کر رہے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4M05Y
Peru Juliaca | Proteste für vorgezogene Wahlen und für Freilassung von Pedro Castillo
تصویر: Hugo Courotto/REUTERS

پیرو کے قومی استغاثہ دفتر نے کہا کہ نسل کشی کے سلسلے میں پیرو کے صدر ڈینا بولوریٹ سے بھی تفتیش کی جائے گی۔ اٹارنی جنرل کے دفتر کا کہنا ہے کہ تحقیقات میں وزیر اعظم البرٹو، وزیر دفاع جارج شاویز اور وزیر داخلہ وکٹر روزاس پر بھی توجہ مرکوز کی جائے گی کہ آیا وہ نسل کشی، قتل اور بری طرح زخمی کرنے کے واقعات میں ملوث تھے یا نہیں۔

دسمبر کے اوائل میں پیرو میں مظاہروں کے نتیجے میں کم از کم 40 افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوگئے تھے۔ اس کے بعد ہی اس انکوائری کا اعلان کیا گیا ہے۔

پیر کے روز جنوبی پونو علاقے میں ہونے والی جھڑپوں میں 17 افراد ہلاک اور 68 دیگر فراد  اور 75 پولیس اہلکار زخمی ہوئے۔ دسمبر میں سابق صدر پیڈرو کاسٹیلو کو معزول کرکے حراست میں لینے کے بعد سے یہ احتجاجی مظاہرے ملک کے مہلک ترین مظاہروں میں سے ایک ہیں۔

انسانی حقوق کے متعدد گروپوں نے حکام پر شہریوں کے خلاف آتشیں اسلحے استعمال کرنے اور اشک آور بم گرانے کا الزام عائد کیا ہے
انسانی حقوق کے متعدد گروپوں نے حکام پر شہریوں کے خلاف آتشیں اسلحے استعمال کرنے اور اشک آور بم گرانے کا الزام عائد کیا ہےتصویر: Juan Carlos CISNEROS/AFP

پیرو کو بین الاقوامی مذمت کا سامنا

انسانی حقوق کے حوالے سے ایک بین امریکی کمیشن تشدد کے واقعات کی تحقیقات کے لیے بدھ کے روز پیرو کا دورہ کرنے والا ہے۔

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر کی ترجمان مارٹا ہرٹاڈو نے حکام سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ "ہلاکتوں اور زخمیوں کی فوری، غیر جانبدار اور موثر تحقیقات کریں اور اس کے لیے ذمہ داروں کو احتساب کے کٹہرے میں لائیں اور متاثرین کو انصاف اور معاوضے تک رسائی کو یقینی بنائیں۔"

پیرو: تشدد پسند محبوبوں کے ’پیار بھرے خطوط‘

انسانی حقوق کے متعدد گروپوں نے حکام پر شہریوں کے خلاف آتشیں اسلحے استعمال کرنے اور اشک آور بم گرانے کا الزام عائد کیا ہے۔

فوج نے دعوی کیا ہے کہ مظاہرین نے ہتھیار اور گھریلو ساختہ دھماکہ خیز مواد استعمال کیے۔

پیرو میں اکثریتی کیتھولک چرچ کے رہنماوں نے تشدد کو جنگ جیسی صورت حال سے تعبیر کیا اور کہا کہ ملک بربریت سے دوچار ہے۔

وزیر اعظم البرٹو اوتارولا نے تشدد پر قابو پانے کی کوشش میں پونو میں تین دن کے کرفیو کا اعلان کیا
وزیر اعظم البرٹو اوتارولا نے تشدد پر قابو پانے کی کوشش میں پونو میں تین دن کے کرفیو کا اعلان کیاتصویر: Hugo Courotto/REUTERS

پیرو میں بدامنی

پیر میں تشدد اس وقت شروع ہوا جب تقریباً 9,000 مظاہرین نے صوبہ پونو کے شہر جولیاکا کے ہوائی اڈے میں داخل ہونے کی کوشش کی جہاں ان کی قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں سے جھڑپ ہوگئی۔

 بولیویا سے متصل، پونو کا علاقہ، بہت سے ایمارا مقامی لوگوں کا گھر ہے۔ یہ علاقہ کاسٹیلو کے حامیوں کی قیادت میں ہونے والے مظاہروں کا مرکز بن گیا ہے۔

پیرو: 'بغاوت'کے الزام میں کاسٹیلو برطرف، دینا نئی صدر مقرر

پیرو میں حکومت مخالف مظاہرے دسمبر کے اوائل میں کانگرس کو تحلیل کرنے کی کوشش کے فوراً بعد کاسٹیلو کی برطرفی اور گرفتاری کے بعد شروع ہوئے۔ وہ بغاوت کے الزام میں قبل از مقدمہ، 18ماہ کی مدت قید میں گزار رہے ہیں، حالانکہ وہ بغاوت میں شامل ہونے سے انکار کرتے ہیں۔

تشدد کا سلسلہ منگل کو بھی جاری رہا، جس میں ایک پولیس افسر کی گاڑی کو نذر آتش کرنے سے ان کی موت ہو گئی۔ اٹارنی جنرل کے دفتر نے اسے ''انتہائی تشدد'' کی کارروائی قرار دیا اور دعویٰ کیا کہ اہلکار کو موت سے پہلے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔

پیرو کے سابق صدر نے گرفتاری سے بچنے کے لیے خودکشی کر لی

وزیر اعظم البرٹو اوتارولا نے تشدد پر قابو پانے کی کوشش میں پونو میں تین دن کے کرفیو کا اعلان کیا۔

پونو کی علاقائی حکومت نے بھی تین روزہ سوگ کا اعلان کیا اور صدر بولوریٹ سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا۔

 مظاہرین قبل از وقت انتخابات اور کاسٹیلو کی رہائی کے علاوہ  صدر بولوریٹ کے استعفیٰ کے ساتھ ساتھ کانگریس کی بندش اور آئین میں تبدیلی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

ج ا/ ص ز (اے ایف پی، روئٹرز)