پیٹرولیم بحران حکومت کے خلاف ’گہری سازش‘ ہے، اسحاق ڈار
19 جنوری 2015سرکاری ٹی وی کے مطابق وزیراعظم نواز شریف نے پیٹرول بحران کے ذمہ داروں کے تعین اور اس کے حل کے لیے اسلام آباد میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی۔ اجلاس میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، وزیر خزانہ اسحاق ڈار، وزیر پیٹرولیم شاہد خاقان عباسی، وزیر پانی و بجلی خواجہ آصف، سیکرٹری پانی و بجلی، قائم مقام سیکرٹری پیٹرولیم اور وزارت پانی وبجلی کے دیگر اعلیٰ عہدیداروں نے شرکت کی۔
وزیر اعظم نے پٹرول کی قلت کے سبب عوام کو درپیش مشکلات پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ عوام کو فوری ریلیف دینے کے لئے ہرممکن وسائل بروئے کار لائے جائیں۔
اسی دوران وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ایسا لگتا ہے کہ موجودہ بحران حکومت کے خلاف ایک گہری سازش ہے۔ پیر کے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس کے دوران وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا کہنا تھا، ’آج تک وزارت پانی و بجلی کی تمام ادائیگیاں کی جاچکی ہیں۔ پیٹرول کی طلب میں اضافہ ہوا ہے اورطلب کو پورا کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔ مانتا ہوں کہ حکومت کی جانب سے بد انتظامی ہوئی ہے۔‘
اسحاق ڈار نے کہا کہ پاکستان اسٹیٹ آئل (پی ایس او) کےفنڈز روکنے کی خبریں غلط ہیں۔ پی ایس او کے تمام واجبات ادا کردیے گئے ہیں، وزارت خزانہ پیٹرول کی خریداری کی ذمہ دار نہیں، تیل بحران کے ذمہ داروں کا تعین کیا جائے گا۔‘
وزیرِ اعظم نواز شریف پہلے ہی سیکرٹری پٹرولیم عابد سعید سمیت پٹرول کی قلت کے مبینہ ذمہ دار چار افسران کو معطل بھی کر دیا تھا اور صوبائی حکام سے کہا تھا کہ وہ پیٹرول کی مہنگے داموں غیر قانونی فروخت کو روکیں۔
گزشتہ ہفتے کے آغاز پر اچانک دارالحکومت اسلام آباد سمیت صوبہ پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں پٹرول غائب ہو گیا۔ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب اور دارالحکومت اسلام آباد میں سردیوں میں گیس کی کمی کی وجہ سے سی این جی سٹیشن پہلے ہی پانچ ماہ کے لیے بند ہیں اور اب پٹرول کی بندش نے عوام کو شدید مشکلات سے دو چار کر دیا ہے۔
اکثر علاقوں میں پٹرول پمپ بند پڑے ہیں اور جہاں پر پٹرول دستیاب بھی ہے، وہاں پر گاڑیوں کی طویل قطاریں لگی ہوئی ہیں اور شہریوں کو پیٹرول کے حصول کے لیے گھنٹوں انتظار کرنا پڑتا ہے۔
اسلام آباد میں آبپارہ مارکیٹ کے نزدیک ایک پٹرول پمپ پر کھڑے نوجوان یاسر محمود نے بتایا کہ ان کی گاڑی پٹرول کی قلت کی وجہ سے گزشتہ تین روز سے گھر پر کھڑی ہے۔ ’’میں اب یہ تین لیٹر کی بوتل لیے کھڑا ہوں کہ اگر پٹرول مل جائے تو کم ازکم گاڑی لےکر کسی قطار میں تو کھڑا ہو سکوں۔‘‘
خیال رہے کہ پٹرول پمپوں پر بوتلوں اور پلاسٹک کے کین میں پٹرول دینے کی حوصلہ شکنی کی جاتی ہے لیکن موجودہ صورتحال میں لوگوں کو بوتلیں اور کین لیے لائنوں میں کھڑا دیکھا جا رہا ہے۔
اسلام آباد کے ایک پٹرول پمپ کے منیجر محمد حنیف کا کہنا ہے کہ پٹرول سستا ہونے کے بعد اس کی طلب بہت بڑھ گئی تھی اور اب اس کی رسد نہ ہونے کے برابر ہے۔’’ہمارے پاس آکر بعض لوگ ہم سے جھگڑتے ہیں کہ پٹرول دو ہم ان کو کہتے ہیں کہ آپ خود دیکھ لو ٹینک (زیر زمین) خشک پڑے ہیں ۔جب پٹرول کی سپلائی ہی نہیں تو ہم کہاں سے دیں ۔بہت بری حالت ہے۔‘‘
چئیرمین پاکستان پٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن عبدالسمیع خان نے پٹرول کے بحران کا ذمہ دار وزارت خزانہ ، وزارت پٹرولیم اور تیل کی تقسیم کار تیرہ کمپنیوں کو ٹھہرایا ہے۔ ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’حکومتی وزراء ایک دوسرے کی وزارتوں کو پٹرول بحران کا ذمہ دا ٹھہرا رہے ہیں، یہ کیا تماشا ہے، یہ سب ملے ہوئے ہیں اور عوام کو خوار کر رہے ہیں۔‘
انہوں نے حکومت کی جانب سے عارضی حل کے طور پر سندھ سے پنجاب کو پٹرول کی فراہمی کے فیصلے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اس طرح سندھ میں بھی جلد ہی پٹرول کا بحران شروع ہوجائے گا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت عارضی بندوبست کرنے کی بجائے مستقل بنیادوں پر پٹرول کی فراہمی کو یقینی بنائے۔