چرنوبل جوہری سانحے کے 33 برس
چرنوبل جوہری حادثے میں بچ جانے والے 33 برس سے اس آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ سوویت دور میں پیش آنے والے اس سانحے کے اثرات آج تک اس علاقے کو ایک بھیانک رنگ دیے ہوئے ہیں۔
مرنے والوں کی یاد
اس وقت یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا۔ اس جوہری پلانٹ میں دھماکے کے فوراﹰ بعد 30 افراد تاب کاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے، جب کہ بعد میں بھی کئی افراد تاب کاری کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گئے۔ 90 ہزار سے زائد مزدوروں نے اس آفت زدہ پلانٹ کے گرد چھ ماہ بعد ایک مضبوط دیوار قائم کی۔
بچ جانے والے خوش قسمت
سیرگئی نوویکوف بچ جانے والے خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1986ء میں اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس انتہائی تاب کاری کے مقام پر کام کی وجہ سے انہوں نے قرب المرگ کیفیت کا سامنا کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں جان کی بازی ہار بیٹھیں گے، مگر ڈاکٹروں کے اندازے غلط نکلے۔
دن شمار کرتے لوگ
نوویکوف کی اہلیہ رائسہ نے اس وقت کلینڈر پر وہ دن نشان زدہ کرنا شروع کر دیے تھے، جب ان کے شوہر چرنوبل سانحے کے بعد انتہائی تاب کاری والے علاقے میں کام کرتے تھے۔ وہ پیلے قلم اور نیلے قلم سے اس کیلنڈر پر دن شمار کرتی رہیں۔ سول اور فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ سے آٹھ لاکھ تھی، جنہوں نے اس سانحے کے بعد کلین اپ یا صفائی آپریشن میں حصہ لیا۔
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘ کی علامت یہ آئیکون ہے۔ اس میں ایک طرف یسوع مسیح جنت میں دکھائی دیے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سانحے کے متاثرین اور صفائی کے کام میں مصروف اہلکار ہیں، جنہیں وہ محبت نذرانہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مقامی آبادی کو دیگر مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تنہا چھوڑ دیے گئے ملازمین
اس سانحے کے بعد صفائی کے کام میں حصہ لینے اور تاب کاری کے سامنے ڈٹے رہنے والے افراد کو بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہ افراد برسوں اپنے لیے مراعات اور پینشن کی کوششیں کرتے رہے۔ نیل مارداگالیموف بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جن کے مطابق انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، مگر حکومت کی جانب سے انہیں بعد میں کچھ بھی نہ ملا۔
کھلے آسمان تلے
کوپاچی کے علاقے میں ایک گڑیا زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ گاؤں اس واقعے کے بعد خالی کرا دیا گیا تھا اور اب تک یہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب بھی یہاں تاب کاری کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی کے جوہری حملے سے بیس گنا زیادہ ہے۔
واپس لوٹنے والے
زالیسیا خالی کرائے جانے والا سب سے بڑا گاؤں تھا۔ یہاں سے 35 سو افراد کو سن 1986اور 1987 میں مختلف شہری مقامات پر منتقل کیا گیا، تاہم ان فراد کو شہروں میں رہنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور قریب ایک ہزار افراد بعد میں رفتہ رفتہ اپنے گاؤں واپس لوٹ آئے۔ انہیں میں ایک خاتون روزیلینا دسمبر میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں فوت ہو گئیں۔
شہرِ خموشاں
اس جوہری تنصیب سے تین کلومیٹر دور واقع شہر پریپیات سوویت اشرافیہ کا مسکن تھا، جہاں زیادہ تر افراد ماسکو، کییف اور دیگر مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند تھا، مگر چرنوبل حادثے نے یہ شہر ایک کھنڈر بنا دیا۔
فطرت کی واپسی
کھیلوں کا یہ مرکز پریپیات کے ان مقامات میں سے ایک ہے، جہاں معیار زندگی کی بلندی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوویت دور کے اہم ایتھلیٹس اس شہر میں آیا کرتے تھے۔ اب یہاں پودوں میں سبز پتے رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
نمبر تین اسکول
اس شہر کی ایک تہائی آبادی 18 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل تھی، جو قریب 17 ہزار بنتی تھی۔ اس شہر میں 15 پرائمری اور پانچ سیکنڈری تھے، جب کہ ایک ٹیکنیکل کالج بھی تھا۔
سوویت ماسک
سوویت دور میں اسکولوں میں شہری دفاع کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی، جن میں گیس حملے کی صورت میں ماسک کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسکول نمبر تین میں یہ گیس ماسک بچوں کو اسی تربیت کے لیے دیے گئے تھے، جب اب وہاں ایک ڈھیر کی صورت میں موجود ہیں۔
ایک سوویت یادگار
لگتا ہی نہیں کہ پریپیات یوکرائن کا علاقہ ہے۔ ایک مقامی گائیڈ کے مطابق، ’’یہ شہر ایک سوویت یادگار ہے اور بتاتا ہے کہ سوویت دور میں زندگی کیسی ہوا کرتی تھی۔‘‘