چنگیز اور ہلاکو خان بھی اتنے جابر نہیں تھے، پادری ساکو
21 جولائی 2014کیتھولک مذہبی رہنما لوئس رفائیل ساکو نے سنی عسکریت پسندوں کی کارروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ انہوں نے کہا آئی ایس نے مسیحیوں سے مذہب تبدیل کرنے اور جزیہ دینے کا کہا تھا اور بصورت دیگر انہیں قتل کرنے کی دھمکی دی تھی۔
موصل پر قبضہ کرنے کے بعد اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے سامنے آنے والے بیان پر پاپائے روم فرانسس نے کہا کہ مسیحیوں کو اُس خطے میں ظلم ستم کا سامنا ہے، جہاں سے ان کے عقیدے کی ابتدا ہوئی تھی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل بان کی مون نے آئی ایس کی کارروائیوں کو انسانیت کے خلاف مظالم سے تعبیر کیا۔
اسلامک اسٹیٹ کی جانب سے دیے جانے والے الٹی میٹم سے قبل ہی مسیحی خاندانوں نے موصل چھوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ان میں سے بہت سے خاندان مسیحیت کے ابتدائی دنوں سے اس شہر میں آباد تھے۔ صرف یہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب اور عقیدے سے تعلق رکھنے والے افراد بھی موصل چھوڑ چکے ہیں۔ ان میں اہل تشیعہ، یزیدی اور الشبک بھی شامل ہیں۔ ان شدت پسندوں نے دیگر برادریوں کے مذہبی مقامات کو تباہ کرتے ہوئےان کی نجی املاک پر قبضہ کر لیا ہے۔ ساکو نے بغداد میں ایک دعائیہ تقریب کے دوران کہا ’’ اسلامک اسٹیٹ کا سنگین ترین جرم یہ ہے کہ انہوں نے صرف کرسچئن کے خلاف نہیں بلکہ انسانیت کے خلاف کارروائیاں کی ہیں‘‘۔ اس تقریب میں مسیحی برادری کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے دو سو سے زائد مسلمان بھی موجود تھے۔
اس موقع پر انہوں نے مزید کہا کہ 21 ویں صدی میں یہ کس طرح سے ممکن ہے کہ لوگوں کو عقیدے کے بنیاد پر شہر بدر کر دیا جائے۔ پادری ساکو نے مزید کہا کہ مسیحی اور اسلامی تاریخ میں اس سے پہلے ایسا نہیں ہوا اور یہاں تک چنگیز خان اور ہلاکو خان نے بھی ایسا نہیں کیا۔
پادری لوئس رفائیل ساکو کے نائب بشپ شیلامون واردونی نے بین الاقوامی برادری سے اس معاملے میں مداخلت کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ ان کے بقول دنیا کو اس کے خلاف آواز اٹھانی ہو گی۔ انہوں نے مزید کہا عراقی حکومت کمزور اور منقسم تھی اور مسلم رہنما اس معاملے میں خاموش رہے۔ عراقی وزیراعظم نوری الما لکی نے ملک میں کرسچئنز کے ساتھ ہونے والے سلوک کو افسوسناک قرار دیا ہے۔ ان کے بقول اس سے اسلامک اسٹیٹ کی مجرمانہ اور دہشت گردانہ سوچ کی عکاسی ہوتی ہے۔ اس موقع پر المالکی نے نقل مکانی کرنے والے افراد کی دوبارہ آباد کاری کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کا بھی اعلان کیا۔ تاہم اس دوران انہوں نے یہ واضح نہیں کیا کہ عراقی فوج موصل کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے دوبارہ کب کارروائی کرے گی۔