چوہے غلیظ ہوتے ہیں یا دلکش؟
پچیس جنوری سے چینی کیلنڈر کے مطابق ’دھاتی چوہے‘ کا سال شروع ہو رہا ہے۔ چینی ہوروسکوپ میں چوہے دانش مندی، قوت حیات اور خوشی کی نمائندگی کرتے ہیں۔ مغربی دنیا میں انہیں بیماری، فریب اور گندگی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
دھاتی چوہے کی خوشی
چینی ہوروسکوپ کی پہلی علامت ایک چوہا ہے، جو نئے آغاز کو ظاہر کرتا ہے۔ چینی باشندے چوہے کو دانش مندی، قوت حیات اور خوشی کی علامت سمجھتے ہیں لیکن یہ جانور پراسرار اور کینہ پرور بھی ہوتا ہے۔ اس کے ساتھ دھات کا لفظ سن دو ہزار بیس میں منافع کے لیے جوڑا گیا۔
بھارت کے قابل احترام چوہے
بھارتی ریاست راجستھان کے شمال میں واقع کرنی ماتا مندر میں تقریباﹰ 20 ہزار چوہے پائے جاتے ہیں۔ وہاں کی کہانیوں کے مطابق چوہے دوبارہ پیدا ہونے والی روحیں ہوتے ہیں اور ان کی محافظ دُرگا دیوی ہوتی ہے۔ روایت کے مطابق ہندوؤں کے دیوتا گنیش نے بھی ایک چوہے پر سفر کیا تھا۔ کرنی ماتا مندر میں اگر کسی فرد کے ننگے پاؤں پر کوئی چوہا دوڑ جائے، تو اسے خوش قسمتی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔
پرتجسس اور مسافر چوہے
چوہوں کی تقریباﹰ ساٹھ اقسام ہوتی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر جنگلوں کے قریب رہتی ہیں۔ اصل میں چوہے جنوب مشرقی ایشیا سے آئے ہیں۔ بھارت اور چین سے یہ جزیروں کی دنیا انڈونیشیا پہنچے اور وہاں سے نیو گنی اور آسٹریلیا تک۔ انسانوں کے سفر کے ساتھ ساتھ یہ بھی دنیا بھر میں پہنچ گئے۔ قرون وسطیٰ میں یہ یورپ بھی پہنچ چکے تھے۔
غلیظ چوہے
یہودیوں کی تورات، مسیحیوں کی انجیل اور مسلمانوں کے قرآن میں چوہوں کا کوئی خاص ذکر نہیں ہے۔ لیکن یورپ میں انہوں نے نہ صرف جمع شدہ غلہ کھایا بلکہ یہ بیماریاں پھیلانے کی وجہ بھی بنے۔ ہر چیز کھا جانے والے یہ جاندار عموماﹰ کوڑے کرکٹ میں اپنی خوراک تلاش کرتے ہیں۔ اندھیرے، تنگ مقامات، نالیوں اور گٹروں میں رہنے کی وجہ سے انسان انہیں غلیظ سمجھتے ہیں۔
غلیظ چوہوں کا خاتمہ
جرمن شہر ہاملن میں پوری دنیا سے سالانہ ہزاروں سیاح چوہے پکڑنے کی کہانی پر مبنی یہ مجسمہ دیکھنے آتے ہیں۔ سن 1284ء میں اس شہر کو چوہوں کی وباء سے پاک کر دیا گیا تھا۔ روایت کے مطابق چوہوں کو بانسری کی مدد سے ایک جگہ جمع کیا گیا تھا۔ آج کے دور میں چوہوں کو مارنے کے لیے زہریلی ادویات استعمال کی جاتی ہیں۔
دشمنی سے دوستی تک کا سفر
جرمنی کے ماہر حیوانیات اور مصنف آلفریڈ بریم نے انیسویں صدی کے وسط میں چوہوں کو ’مکروہ جانور‘ لکھا تھا۔ ان کے مطابق، ’’جونہی چوہوں کو پتا چلتا ہے کہ انسان ان کے سامنے بے بس ہو چکا ہے، تو ان کی چالاکیوں میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے۔‘‘ تب فلموں میں بھی انہیں برا ہی دکھایا گیا۔ ان کا دوستانہ تصور فلم ’راٹا ٹوئی‘ میں سامنے آیا اور ان سے متعلق پرانا تصور کافی حد تک بدل گیا۔
چوہا بطور پالتو جانور
سفید چوہوں کو خاص طور بطور پالتو جانور بھی پالا جاتا ہے۔ یہ کم شرمیلے ہوتے ہیں اور انسانوں سے خوف بھی نہیں کھاتے۔ چوہوں کے غلیظ ہونے کی کہانیوں کے باوجود یہ قدرے صفائی پسند ہوتے ہیں اور اپنے بالوں کی دیکھ بھال میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ اس نسل کے چوہوں کے کئی دیگر رنگ بھی ہوتے ہیں اور اسی وجہ سے انہیں ’رنگدار چوہے‘ بھی کہا جاتا ہے۔
معاشرتی رویوں کے حامل اور ذہین
مطلبی اور خود غرض ہونے کی بجائے چوہے خاندانی گروپوں میں رہتے ہیں۔ ایک خاندان کے چوہے ایک دوسرے کو خاص طرح کی بُو سے پہچان لیتے ہیں۔ خاندان میں محبت اور مضبوطی کے لیے کمزور اور چھوٹے چوہوں کو کھانے کے لیے ترجیحی بنیادوں پر راستہ دیا جاتا ہے۔ یہ ذہین بھی ہوتے ہیں۔ مشکل اور پیچیدہ راستوں میں سے آسان راستہ بہت جلد تلاش کر لیتے ہیں۔
تحقیق میں چوہوں کا استعمال
چوہے غلاظت سے سفر کرتے ہوئے سائنسدانوں کی تحقیق تک بھی پہنچ چکے ہیں۔ کتوں یا بندروں کے برعکس ان پر تجربات کے خلاف کم ہی آواز اٹھائی جاتی ہے۔ چوہوں کی نسل تیزی سے بڑھتی ہے اور یہ کم قمیت بھی ہیں، اس لیے تحقیقی اور تجرباتی دنیا میں ان کا استعمال زیادہ ہے۔ صرف جرمنی میں سالانہ پانچ لاکھ چوہوں کو طبی تحقیق کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔
چوہے اور دھماکا خیز مواد
کتوں کے مقابلے میں بھی چوہے میدان میں آ چکے ہیں۔ چوہوں کی کئی اقسام دھماکا خیز مواد سونگھنے میں اتنی ہی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرتی ہیں، جتنی کہ شیفرڈ اور اس نسل کے دیگر کتے دکھاتے ہیں۔ تھائی لینڈ، انگولا، کمبوڈیا اور موزمبیق میں چوہوں کی مدد سے بارودی سرنگیں تلاش کی جاتی ہیں۔