چھ دہائیوں بعد منقسم کشمیر میں آزادانہ تجارت
21 اکتوبر 2008چھ دہائیوں بعد منقسم کشمیر میں آزادانہ تجارت کا سلسلہ شروع ہوگیا ہےاس باہمی تجارت کو پاکستان اور بھارت کےمابین تنازعہ کشمیر کے حل کی جانب ایک ٹھوس اور مثبت قدم قراردیا جارہا ہے۔
کشمیر کے دونوں حصوں کے بیچ سرحدی پابندیوں کو نرم کرنے کی اس کوشش سے مستقبل میں کشمیریوں کی اس خطے میں آزادانہ نقل وحمل کی امید یں وابستہ کی جارہی ہیں۔
منگل کے روز ، چودہ ٹرک مظفر آباد سے سبزیاں، چاول خشک میوہ جات اور پشاوری چپل لئے سری نگر کی جانب جبکہ سلام آباد سے تیرہ ٹرک سیب اور دیگر میوہ جات لئے مظفر آباد کی طرف روانہ ہوئے۔
جموں و کشمیرسے مقامی گورنر این این وہرا نے جبکہ مظفر آباد سے پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے ٹرک سروس کا افتتاح کیا۔
سردار عتیق نے امکان ظاہر کیا کہ کشمیر کے دونوں اطراف باقاعدہ تجارت کے امکانات کافی روشن ہیں، لیکن ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ بلاشبہ دو طرفہ تجارت کا آغاز ایک بڑی کامیابی ہے لیکن آج کے اس قدم سے ساٹھ سالہ مسئلہ کشمیر کے حل کی بہت بڑی امید وابستہ نہیں کی جاسکتی۔
این این وہرا نے اس امید کا اظہار کیا کہ تجارت کے فروغ سے بدامنی کے واقعات میں کمی ہوگی اور امن امان کی صورتحال بہتر ہوگی۔
حالیہ تجارتی ٹرک سروس کے ذریعے ہفتے میں ایک روز چند مخصوص اشیاء کا کشمیر کے دونوں اطراف تبادلہ کیا جائے گا۔
کشمیر کو تقسیم کرنے والی لائن آف کنٹرول کے دونوں اطراف آزادانہ تجارت، حریت پسندوں کے دیرینہ مطالبات میں سے ایک رہا ہے۔ بھارت کی جانب سے اس قسم کی تجارت کی کافی عرصے سےمخالفت کی جارہی تھی کہ اس سے وادی میں علیحدگی پسندوں کی مسلح کاروائیاں بڑھ جائیں گی ۔
جموں وکشمیر میں اس سال مرحلہ وار انتخابات کے انعقاد کا اعلان ہوچکا ہے۔ گزشتہ کچھ عرصے سے وادی میں آزادی کے حق میں مظاہروں میں کافی شدت پائی جاتی ہے جس کے پیش نظر ٹرک سروس کے افتتاح کے موقع پر انتہائی سخت حفاظتی انظامات کئے گئے تھے ۔
پاکستان و بھارت کے بیچ اس دیرینہ مسئلہ کے حل اور دونوں اطراف کے کشمیریوں کو ملنے کا موقع دینے کیلئے سال دو ہزار پانچ میں مظفرآباد اور سری نگر کو ملانے والی بس سروس شروع کی گئی تھی۔ روایتی سرد مہری اور اعتماد کی کمی کے باعث اس بس سروس سے تین سال میں اب تک صرف نو ہزار کشمیری سفر کرپائے ہیں۔