چیئرمین نیب کے عہدے کے لیے موضوع امیدوار کا انتخاب ہنوز ایک بڑا مسئلہ
7 اکتوبر 2013سپریم کورٹ کی جانب سے حکومت کو اس خالی عہدے پر جلد از جلد تقرری کی ہدایت کی جارہی ہے۔ اس بارے میں وزیر اعظم اورنیشنل اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ کے درمیان اب تک ہونے والی دو ملاقاتیں بے نتیجہ ثابت ہوئی ہیں۔ چیئرمین نیب کا عہدہ اٹھائیس مئی کو اس وقت خالی ہوگیا تھا جب سپریم کورٹ نے ایڈمرل ریٹائرڈ فصیح بخاری کی تقرری کو کالعدم قرار دیا تھا۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ چیئرمین نیب کی تقرری میں قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف کے ساتھ بامقصد مشاورت کا عمل پورا نہیں کیا گیا جو کہ نیب آرڈیننس کے آرٹیکل چھ کی خلاف ورزی ہے۔
اس وقت بھی بظاہر یہی بامقصد مشاورت نئے چیئرمین نیب کی تقرری میں روکاوٹ ہے۔ دونوں جانب چیئرمین نیب کے عہدے کے لئے اب تک جو چار نام سامنے آئے ہیں ان میں حکوت کی جانب سے سپریم کورٹ کے سابق جج اعجاز چوہدری اور سابق بیوروکریٹ عبدالرؤف چوہدری جبکہ حزب اختلاف کی جانب سے شوکت درانی اور جسٹس (ر)میاں اجمل شامل ہیں۔
معروف قانون دان اور سابق جج طارق محمود کا کہنا ہے کہ پاکستان میں احتساب کی روایت خاصی کمزور رہی ہے اور بظاہر اب بھی ایسا ہی ہو رہا ہے۔ ڈی ڈبلیو کیساتھ انٹرویو میں انہوں نے کہا کہ اب سیاسی قیادت کا امتحان ہے کہ وہ اپنے طور پر جلد سے جلد چیئرمین نیب کے عہدے کے لئے موضوع امیدوار کا انتخاب کرے۔ انہوں نے کہا کہ :
"اگرچیئرمین نیب نہیں ہے تو بہت سے کام سرے سے ہو ہی نہیں سکتے۔ اپیلیں داخل نہیں ہو سکتیں کوئی چالان جمع نہیں کرایا جاسکتا اور بھی اس قسم کے معاملات ہیں۔ تو ایک نیب اتنا اہم ادارہ ہے۔ پھر جس ملک میں کر پشن کی اتنی پرانی تاریخ ہو۔ لیکن بہر حال اچھے کی امید کرنی چاہیے"۔
سابق صدر آصف علی زرداری سمیت موجودہ وزیر اعظم نواز شریف اور ان کے اہل خانہ کے علاوہ بہت سے با اثر افراد کے خلاف نیب میں بدعنوانی کے مقدمات زیر التوا ہیں۔ بعض حلقوں کے خیال مین انہی مقدمات کے پیش نظر مسلم لیگ(ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت چاہتی ہے کہ چیئرمین نیب انہی کی طرف سے منتخب کیا جائے۔ دوسری جانب سپریم کورٹ میں زیر سماعت متعدد مقدمات میں بھی چیئرمین نیب کی عدم موجودگی کے سبب پشرفت نہیں ہو سکی۔ پیپلز پارٹی کے راہنما اور نیب کے سابقچیئرمین فصیح بخاری کے وکیل لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ نےچیئرمین نیب کی تقرری کامقدمہ غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیا ہے جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عدالت اس معاملے میں اپنا اثرورسوخ محدود رکھنا چاہتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ، "کوئی ڈیڈلائن دینا شاید پھر مذاق بن جائے اور پھر شاید سپریم کورٹ اس بارے میں کچھ کرنے سے قاصر ہوجائے گی۔اس لیے ہر وزیر اعظم کو تو گھر بھیجنے سے رہے اور ہر مرتبہ اس طرح حکومتی معاملات میں مداخلت کرنا بھی عدالت عظمیٰ کے وقار میں اضافہ نہیں کر سکتا۔"
سپریم کورٹ فصیح بخاری سے قبل دیدار حسین شاہ کی بطور نیب چیئرمین تقرری کالعدم قرار دے چکی ہے اور عدالت نے اس مقدمے میں بھی قائد حزب اختلاف سے بامعنی مشاور ت نہ ہونے کا کہا تھا۔ نیب کے دونوں مذکورہ سربراہان کی تقرری کو اس وقت کے قائد حزب اختلاف چوہدری نثار علی خان نے چیلنج کیا تھا۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ موجودہ ڈیڈ لاک کی صورتحال سے بچنے کےلئے حکومت کو نیب آرڈیننس کی شق میں ترمیم کر کہ وزیر اعظم اور قائد حزب اختلاف میں بامعنی مشاورت کے بجائے ایوان میں کثرت رائے سے انتخاب کا طریقہ اپنانا چاہیے۔
رپورٹ: شکور رحیم/ اسلام آباد
ادارت: کشور مصطفیٰ