چین 2030ء تک امریکہ سے بھی بڑی معیشت، عالمی بینک
23 مارچ 2011عالمی بینک کے چیف اکانومسٹJustin Lin نے بدھ کے روز ہانگ کانگ میں منعقدہ چین میں اقتصادی ترقی سے متعلق ایک فورم سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چین نے دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت کے طور پر گزشتہ برس جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ جسٹن لِن کے مطابق دنیا کے سب سے زیادہ آبادی والے ملک چین نے سال رواں کے دوران اپنی معیشت میں ترقی کی رفتار کا ہدف آٹھ فیصد رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ بیجنگ حکومت سن 2011 سے لے کر 2015ء تک اقتصادی ترقی کی یہی سالانہ شرح سات فیصد تک رکھنے کی خواہش مند ہے۔
عالمی بینک کے اس اعلیٰ ترین ماہر اقتصادیات نے کہا کہ چین اگلے دو عشروں میں دنیا کے سب سے بڑی معیشت بن سکتا ہے۔ انہوں نے چینی ترقی سے متعلق فورم کے شرکاء کو بتایا کہ اگر شہریوں کی قوت خرید میں اضافے کی رفتار کا جائزہ لیا جائے تو ممکن ہے کہ سن 2030 تک چینی معیشت کا حجم امریکی معیشت کے حجم سے بھی دوگنا ہو جائے۔
Justin Lin نے اس بات کا خاص طور پر ذکر کیا کہ چین سالہا سال سے دنیا کی سب سے تیز رفتار ترقی کرنے والی اقتصادی قوت ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ دو عشروں کے دوران چینی معیشت میں ترقی کی سالانہ رفتار کی اوسط 10.4 فیصد رہی ہے، جو کسی معجزے سے کم نہیں۔ ورلڈ بینک کے اس عہدیدار کے بقول سن 1990 سے لے کر 2010ء تک چینی معیشت میں جو ترقی ہوئی، وہ تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی دیگر بڑی اقتصادی طاقتوں کی صورت حال کے بالکل بر عکس ہے۔ ساتھ ہی جسٹں لِن نے خبردار بھی کیا کہ چینی معیشت میں حیران کن ترقی بین الاقوامی مالیاتی بحران کے نتیجے میں عالمی معیشت میں بحالی کے عمل کی سست رفتاری سے متاثر بھی ہو سکتی ہے۔
عالمی بینک کے چیف اکانومسٹ لِن نے اپنی موجودہ ذمہ داریاں سن 2008 میں سنبھالی تھیں۔ انہوں نے چین کے بارے میں یہ بھی کہا کہ چین اپنی زبردست اقتصادی ترقی کے باوجود دنیا میں ماحولیاتی آلودگی کا باعث بننے والا سب سے بڑا ملک بھی ہے۔ جسٹن لِن کے مطابق چین کو اب اس موقع سے فائدہ اٹھانا چاہیے کہ وہ ماحول دوست گرین ٹیکنالوجی کے استعمال کے حوالے سے نیا عالمی لیڈر بن سکتا ہے۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: مقبول ملک