چین اور بھارت باہمی کشیدگی کی جانب بڑھتے ہوئے
4 جولائی 2017چین کا الزام ہے کہ بھارتی فوج حال ہی میں اس کے ریاستی علاقے میں داخل ہو گئی تھی اور بھارت کے شمال مشرقی علاقے سکم کے حوالے سے دونوں ہمسایہ ملکوں کے مابین جو مفاہمت ہوئی تھی، بھارت اس کی خلاف ورزی کر رہا ہے، حالانکہ بھارت کی تمام سابقہ حکومتیں اس پر کاربند رہی ہیں۔
دوسری طرف بھارت کا کہنا ہے کہ چین برطانوی دور کے 1890کے جس معاہدے کی بات کر رہا ہے، بھارت اسے تسلیم نہیں کرتا کیوں کہ 2012 میں دونوں ملکوں کے درمیان یہ مفاہمت ہوئی تھی کہ کسی ایسی جگہ کے سلسلے میں جس پر بھارت اور چین کے درمیان تنازعہ ہو جائے، اس کا فیصلہ اس تیسرے ملک کے ساتھ صلاح مشورے سے کیا جائے گا جہاں وہ جگہ واقع ہے۔ اس طرح مذکورہ تنازعے میں شامل تیسرا ملک بھوٹان ہے۔
بھارت اور چین باہمی اختلافات مناسب طور سے دور کریں، چینی صدر
عالمی اقتصادی محاذ پر بھارت کے لئے نامناسب صورتحال
بھارت نے ’ون بلیٹ ون روڈ‘ منصوبے کا بائیکاٹ کر دیا
بھارت اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے اور فوجی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ سرحد کے معاملے پر دونوں ملکوں کے درمیان 1962 میں جنگ بھی ہو چکی ہے اور اطراف کی افواج کے درمیان اکثر آمنا سامنا ہوتا رہا ہے۔ تاہم 1962 کے بعد یہ پہلا موقع ہے کہ جب تعطل اتنا طویل ہو گیا ہے۔
دونوں ملکوں کی فوجیں سکم میں ڈوکلا م کے علاقے میں تقریباً ایک ماہ سے آمنے سامنے ہیں۔یہ علاقہ بھارت، چین اور بھوٹان کے درمیان واقع ہے۔ نیا تنازعہ اس وقت شروع ہوا تھا، جب چینی فوج نے چین اور بھوٹان کے درمیان متنازعہ علاقے ڈوکلام میں (جیسے چینی زبان میں ڈونگلانگ کہا جاتا ہے) ایک سڑک تعمیر کرنا شروع کر دی تھی۔
اس سے قبل چینی فوج نے اس علاقے میں واقع بھارتی فوج کے دو بنکروں کو ہٹانے کی وارننگ بھی دے دی تھی۔ چینی فوج نے ان بنکروں کو چھ جون کی رات کو تباہ کر دیا تھا۔ چین کا دعویٰ ہے کہ یہ اس کا علاقہ ہے اور بھارت یا بھوٹان کا اس پر کوئی حق نہیں ہے۔
تازہ سرحدی کشیدگی کے بعد بھارت نے سکم میں اپنی پوزیشن مضبوط کرنے کے لیے وہاں اپنے فوجیوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔ فوجیوں کو ’غیر جنگی حالت‘ میں رکھا گیا ہے۔ملکی وزیر خزانہ اور وزیر دفاع ارون جیٹلی نے چین کو سخت لہجے میں وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت اب 1962 کا بھارت نہیں بلکہ 2017 کا بھارت ہے۔ ادھر چینی وزارت خارجہ نے بھی اس کا جواب دیتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا، ’’بھارت کا کہنا بالکل درست ہے کہ 2017 کا بھارت 1962کے بھارت سے مختلف ہے۔ ٹھیک اسی طرح چین بھی اب پہلے کے مقابلے میں کافی مختلف ہے۔‘‘
کیا بھارت و امریکا کی قربت پاکستان کے لیے خطرہ ہے؟
افغانستان سے متعلق مذاکراتی عمل میں پہلی بار بھارت بھی شامل
بھارتی تنقید پر چین پاکستان کے ساتھ
نئی دہلی میں تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگرصورت حال میں جلد از جلد بہتری نہ آئی، تو دونوں ملکوں کے درمیان مکمل فوجی تصادم کا خدشہ ہے۔ بھارت کے انسٹیٹیوٹ آف چائنہ اسٹڈیز میں چینی امور کی ماہر پروفیسر الکا اچاریہ نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے بھارت اور چین کے بگڑتے ہوئے رشتوں کو فوراً درست کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا، ’’چین کے ساتھ خراب تعلقات کی وجہ او بی او آر ، سی پیک اور کچھ دیگر امور بھی ہوسکتے ہیں۔ رشتوں کی خرابی کا سبب کچھ بھی ہو، لیکن اس تناز عے کو فوراً ختم کرنے کے لیے پہل کی ضرورت ہے۔ اگر دونوں ملکوں کے درمیان جلد ہی وزارتی سیکرٹری یا جوائنٹ سیکرٹری سطح کی کوئی بات چیت نہ ہوئی، تو یہ کشیدگی مزید بڑھ سکتی ہے۔‘‘
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جرمنی کے شہر ہیمبرگ میں سات اور آٹھ جولائی کو ہونے والے جی ٹوئنٹی کے سربراہی اجلاس کے دوران بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور چینی صدر شی جن پنگ کے مابین ہونے والی ملاقات پر بھی یہ مسئلہ چھایا رہ سکتا ہے۔
تعلقات میں کشیدگی کی وجہ سے چین نے تبت میں واقع ہندوؤں کے انتہائی متبرک مقام کیلاش مانسرور کی سالانہ یاترا پر جانے والے بھارتی زائرین کو تبت جانے سے روک دیا ہے جس کی وجہ سے درجنوں زائرین کو اپنا سفر منسوخ کرنے واپس لوٹنا پڑا۔ دوسری طرف چین نے ان بھارتی صحافیوں کا ایک دورہ بھی منسوخ کردیا ہے، جو بیجنگ حکومت کی دعوت پراگلے ہفتے تبت جانے والے تھے۔
اس دوران بھارت میں ملکی اپوزیشن کی کانگریس پارٹی نے نریندر مودی حکومت سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ چینی دراندازی کے خلاف اپنی حکمت عملی واضح کرے۔
کا نگریس پارٹی کے ترجمان ابھیشک منوسنگھوی نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، ’’پچھلے 45 دنوں میں چین نے 145مرتبہ سرحدی خلاف ورزی کی ہے۔ چینی فوجی ہیلی کاپٹر بھارتی صوبے اتر آکھنڈ کے علاقے چمولی میں دو مرتبہ داخل ہو چکے ہیں۔ اور مودی حکومت ہے کہ چین کے معاملے میں مسلسل ناکام دکھائی دے رہی ہے۔‘‘